سماجی رابطے کی ویب سائیٹس یا ’سوشل میڈیا‘ پر مبینہ طور پر توہین آمیز مواد کی موجودگی کے بارے میں دائر درخواست کی سماعت کے بعد اسلام ہائی کورٹ نے حکومت سے کہا کہ ایسے مواد تک رسائی کو فوری طور پر بلاک کیا جائے۔
جب کہ جج جسٹس شوکت صدیقی نے وزارت داخلہ کو یہ حکم بھی دیا کہ ایسے افراد جو کہ سوشل میڈیا پر مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد شائع کرنے میں ملوث ہیں اُن کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُن کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں شامل کیا جائے۔
واضح رہے کہ ایک درخواست گزار سلمان شاہد نے سوشل میڈیا پر ایسے مبینہ مواد کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ توہین آمیز مواد تک رسائی کو بند کرنے کا حکم دے، کیوں کہ اس سے اُن کے بقول مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے بدھ کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بھی طلب کیا تھا تاہم وزارت داخلہ کے عہدیداروں کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے چوہدری نثار عدالت میں نہیں آ سکیں گے۔
تاہم جب عدالت کی طرف سے حکم سنایا گیا تو اُس وقت وفاقی سیکرٹری داخلہ، اسلام آباد پولیس کے سربراہ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین کمرہ عدالت ہی میں موجود تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم نامے پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ماہر تعلیم اور حقوق انسانی کے ایک سرگرم کارکن ڈاکٹر مہدی حسن نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ توہین مذہب کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور اس بات کا تعین کرنا کہ کون سا مواد اس زمرے آتا ہے اور کون سا نہیں ایک مشکل کام ہے۔
’’یہ بہت حساس معاملہ ہے، حکومت آسانی کے ساتھ اس سے نہیں نمٹ سکے گی۔ ویسے بھی مذہب سے متعلق معاملات کے بارے میں حکومت کا رویہ معذرت خواہانہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ماضی میں یوٹیوب ویب سائیٹ پر پیغمبر اسلام سے متعلق ایک توہین آمیز فلم کے کچھ حصے نشر ہونے کے بعد حکومت نے اس ویب سائٹ تک رسائی بلاک کر دی تھی جو لگ بھگ تین سال تک جاری رہی۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے جس کی سزا قانون کے مطابق موت ہے۔
رواں ماہ کے اوائل ہی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے نام ایک کھلے خط میں حکام سے صحافیوں، بلاگرز، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدام کا مطالبہ کیا تھا جنہیں تنظیم کے بقول ملک میں مستقل دباؤ، ہراس، دھمکیوں اور تشدد پر مبنی حملوں کا سامنا ہے۔
جج شوکت عزیز صدیقی نے گزشتہ ماہ ایک غیر معمولی حکم نامے میں’ویلنٹائن ڈے‘ عوامی مقامات اور سرکاری طور پر منانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنے حکم نامے میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور وفاقی وزارت اطلاعات سے بھی کہا تھا کہ وہ میڈیا کو اس دن کے بارے میں پروگرام پیش کرنے اور تقاریب کی کوریج سے روکے۔
واضح رہے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل میں ممتاز قادری کی اپیل کی سماعت جب اسلام آباد میں ہوئی تو اس وقت بھی جسٹس شوکت صدیقی نے ممتاز قادری کو دہشت گردی کی دفعات تحت دی گئی سزا ختم کر دی تھی۔
لیکن جب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں گیا تو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ممتاز قادری کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت دی گئی سزا کو بحال کر دیا تھا۔