اسلام آباد —
تین روزہ اسلام آباد ادبی میلہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہفتے کو دوسرے روز بھی جڑواں شہروں کے رہنے والوں کی توجہ کا خاص مرکز رہا اور ہفتہ وار تعطیل ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک خاصی بڑی تعداد مقامی ہوٹل میں منعقدہ اس میلے میں شریک ہوئی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام اس میلے میں ایک سو سے زائد ملکی و غیر ادیب، دانشور اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں۔
کتابوں سے شغف رکھنے والوں کے ذوق کی تسکین کے لیے یہاں بے شمار موضوعات پر ہزاروں کتابیں بھی فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں جب کہ مختلف نشستوں میں شعر، ادب، ڈرامہ اور فکر و فن پر بھی سیر حاصل مذاکرے اور مباحثے ہو رہے ہیں۔
معروف ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ ایسے میلوں کے انعقاد سے بلاشبہ ادب کا فروغ اور ادیب کی پذیرائی ہوتی ہے لیکن انھوں نے فی زمانہ ادبی میلوں میں بڑھتے ہوئے کاروباری رجحان کو ادب کے لیے مضر قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے لوگ اب میلوں کا اہتمام کررہے ہیں جن کا مقصد ادب کا فروغ نہیں بلکہ کوئی ذاتی و کاروباری مفاد ہوتا ہے۔
"آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی میں بات نہیں کرتا کیونکہ یہ تو ادبی میلہ شروع کرنے والوں میں سے ہیں۔۔۔ لیکن بہت سے جگہوں پر ایسے میلے بھی ہو رہے ہیں کہ مثلاً جو صاحت یہ میلہ منعقد کر رہے ہیں ان کا دور دور تک ادب سے کوئی تعلق نہیں اور وہ صرف اس لیے میلہ ارینچ کررہے ہیں کہ دو چار کروڑ روپے لگا کر ان کو دنیا کے بڑے لکھنے والوں تک رسائی ہوجاتی ہے۔ ۔ ۔ تو یہ کمرشل ازم جو ہے یہ ایک نقصان دہ چیر ہے مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے ٹی وی چینلز میں ریٹنگ ہوتی ہے تو یہاں بھی شروع ہو جائے کہ کونسا میلہ زیادہ ریٹنگ لیتا ہے کس میں کتنا ہجوم تھا۔۔۔ اس میں خالصتاً ادب اور ثقافت اور مصوری وغیرہ ہی ہونی چاہیے۔"
مشہور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید ادبی میلوں کو معاشرتی ترقی کا ایک جز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سماج کے ارتقا میں یہ ایک موثر کردار ادا کرتے ہیں۔
" اس سے ایک طرح سے تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ادیبوں سے لوگ ملتے ہیں ان سے متاثر ہوتے ہیں پھر وہ کتاب کی طرف جاتے ہیں تو یہ ایک مسلسل عمل ہے اور وہ کسی بھی ایسی سوسائٹی میں جو فروغ پا رہی ہو اس میں یہ پراسس ضروری ہے۔۔۔سوسائٹی تو اسی طرح آگے بڑھتی ہے یہ پراسس ہے یہ چلتا رہتا ہے اور اسی سے معاشرہ بدلتا ہے۔"
ادبی میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایسے میلے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام اس میلے میں ایک سو سے زائد ملکی و غیر ادیب، دانشور اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں۔
کتابوں سے شغف رکھنے والوں کے ذوق کی تسکین کے لیے یہاں بے شمار موضوعات پر ہزاروں کتابیں بھی فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں جب کہ مختلف نشستوں میں شعر، ادب، ڈرامہ اور فکر و فن پر بھی سیر حاصل مذاکرے اور مباحثے ہو رہے ہیں۔
معروف ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ ایسے میلوں کے انعقاد سے بلاشبہ ادب کا فروغ اور ادیب کی پذیرائی ہوتی ہے لیکن انھوں نے فی زمانہ ادبی میلوں میں بڑھتے ہوئے کاروباری رجحان کو ادب کے لیے مضر قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے لوگ اب میلوں کا اہتمام کررہے ہیں جن کا مقصد ادب کا فروغ نہیں بلکہ کوئی ذاتی و کاروباری مفاد ہوتا ہے۔
"آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی میں بات نہیں کرتا کیونکہ یہ تو ادبی میلہ شروع کرنے والوں میں سے ہیں۔۔۔ لیکن بہت سے جگہوں پر ایسے میلے بھی ہو رہے ہیں کہ مثلاً جو صاحت یہ میلہ منعقد کر رہے ہیں ان کا دور دور تک ادب سے کوئی تعلق نہیں اور وہ صرف اس لیے میلہ ارینچ کررہے ہیں کہ دو چار کروڑ روپے لگا کر ان کو دنیا کے بڑے لکھنے والوں تک رسائی ہوجاتی ہے۔ ۔ ۔ تو یہ کمرشل ازم جو ہے یہ ایک نقصان دہ چیر ہے مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے ٹی وی چینلز میں ریٹنگ ہوتی ہے تو یہاں بھی شروع ہو جائے کہ کونسا میلہ زیادہ ریٹنگ لیتا ہے کس میں کتنا ہجوم تھا۔۔۔ اس میں خالصتاً ادب اور ثقافت اور مصوری وغیرہ ہی ہونی چاہیے۔"
مشہور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید ادبی میلوں کو معاشرتی ترقی کا ایک جز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سماج کے ارتقا میں یہ ایک موثر کردار ادا کرتے ہیں۔
" اس سے ایک طرح سے تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ادیبوں سے لوگ ملتے ہیں ان سے متاثر ہوتے ہیں پھر وہ کتاب کی طرف جاتے ہیں تو یہ ایک مسلسل عمل ہے اور وہ کسی بھی ایسی سوسائٹی میں جو فروغ پا رہی ہو اس میں یہ پراسس ضروری ہے۔۔۔سوسائٹی تو اسی طرح آگے بڑھتی ہے یہ پراسس ہے یہ چلتا رہتا ہے اور اسی سے معاشرہ بدلتا ہے۔"
ادبی میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایسے میلے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔