پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت سے کچھ فاصلے پر ممتاز قادری کے حامیوں کا دھرنا پیر کو بھی جاری رہا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے پر سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کے چہلم کے سلسلے میں اتوار کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
جس کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے اسلام آباد کا رخ کیا اور رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے جب وہ پارلیمنٹ کی عمارت جانب بڑھے تو پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
اس دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا لیکن پھر بھی وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب پہنچ گئے۔
صورت حال میں کشیدگی کے بعد حکومت نے وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے ریڈ زون کی حفاظت کے لیے فوج کو طلب کر لیا تھا۔
مظاہرے میں شامل افراد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کے قائدین نے اُنھیں پرامن رہنے کی واضح ہدایات دی ہیں، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مطالبات کی منظور کروائے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔
حکومت کی نمائندوں اور مظاہرین کے قائدین کے درمیان اتوار کی شب ابتدائی بات چیت بھی ہوئی تھی جس کے بعد مظاہرین نے پارلیمنٹ کی جانب نا بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن اس بارے میں ہونے والی مزید بات چیت میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
پیر کو جھڑپیں تو نہیں ہوئیں تاہم ممتاز قادری کے حامی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں تعینات ہے۔ جب کہ دن بھر اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں موبائل فون سروس بھی معطل رہی۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اُن کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرنے کے علاوہ حکومت یہ یقین دہانی کروائے وہ توہین مذہب سے متعلق قانون میں کسی طرح کی ترمیم نہیں کرے جب کہ مظاہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ توہین مذہب کے جرم پر جن افراد کو عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں حکومت اُن پر عمل درآمد کرے۔
اتوار کو مظاہرین نے میٹرو بس اسٹیشن میں تھوڑ پھوڑ بھی کی جس کی وجہ سے پیر کو میٹرو سروس معطل رہی۔
اس وقت اہم سرکاری عمارتوں اور سفارت خانوں پر مشتمل وفاقی دارالحکومت کے علاقے ’ریڈ زون‘ میں فوج تعینات ہے۔ اتوار کو ہونے والے جھڑپوں میں پولیس کے مطابق لگ بھگ 20 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔