شدت پسند گروپ داعش نے لبنان میں جمعرات کو ہونے والے ان خودکش بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جن میں کم از کم 41 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
شدت پسند گروپ کے دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق تو نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ اسی طرز پر کیے گئے جیسے داعش دیگر ہلاکت خیز حملے کرتا رہا ہے۔
یہ دھماکے دارالحکومت بیروت کے نواح میں ایک مصروف علاقے برج البراجنہ میں چند منٹ کے وقفوں سے ہوئے۔ یہ شیعہ اکثریتی آبادی والا اور شام کے صدر بشار الاسد کے حامی گروپ حزب اللہ کے زیر اثر علاقہ ہے۔
پولیس کے مطابق دو خودکش حملہ آوروں نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کیا جب کہ تیسرے حملہ آور کی لاش ملبے تلے سے برآمد ہوئی جس کی خود کش جیکٹ میں دھماکا نہیں ہو سکا تھا۔
شیعہ حزب اللہ گروپ کے ایک عہدیدار حسین الخلیل کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد حملہ سنی شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف ان کی کارروائیوں کو روکنے میں کسی طور بھی کامیاب نہیں ہو گا۔
"یہ ایک چھوٹی لڑائی نہیں ہے یہ ہمارے درمیان ایک طویل جنگ ہے۔ ہمیں تاحال یہ نہیں پتا کہ اس (حملے کے پیچھے) کون ہے لیکن توقع یہی ہے کہ اس میں داعش اور وہ تمام ملوث ہیں جو ان وحشیوں سے تعلق رکھتے ہیں جو انسانیت اور سماج کے خلاف ایسے حملے کر سکتے ہیں۔"
برج البراجنہ میں پہلے بھی ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں اور سنی شدت پسند گروپس یہاں مزید حملوں کی دھمکی بھی دیتے آئے ہیں۔
امریکہ نے لبنان میں ہونے والے "ہولناک" حملے کی "شدید الفاظ میں مذمت" کرتے ہوئے اس میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ "ایسے دہشت گرد اقدام صرف لبان کی ریاست کے اداروں بشمول سکیورٹی سروسز کے لیے ہماری اس حمایت کے عزم کو مزید تقویت دیتے ہیں جس کا مقصد ایک مستحکم، خودمختار اور محفوظ لبنان کو یقینی بنانا ہے۔"
اقوام متحدہ کے لبنان کے لیے خصوصی معاون سدریگ کاگ نے بھی ان دھماکوں کی مذمت کی اور کہا کہ "لبنان کے اتحاد، استحکام اور سلامتی کو ہر قوت حمایت اور تحفظ کی ضرورت ہے۔"