داعش کی طرف سے بھارت میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے کی حالیہ خبروں کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں داعش کے خلاف مظاہروں میں مسلمانوں نے اس تنظیم کو ’’غیر اسلامی‘‘ اور ’’اسلام دشمن‘‘ کہہ کر اس کی مذمت کی ہے۔
بھارتی اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے خبر دی تھی کہ داعش کی طرف سے حال ہی میں جاری کیے گئے منشور میں تنظیم نے کہا ہے کہ وہ ’’عراق اور شام کے بعد بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان (اور کئی دیگر ممالک) میں اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھائے گی۔‘‘
’’دولت اسلامیہ کا سیاہ پرچم‘‘ نامی منشور میں بھارتی مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے خلاف جہاد کریں۔
بھارت کے جونیئر وزیر داخلہ ہری بھائی پارتھی بھائی چوہدری نے کہا کہ حکومت داعش کے خطرے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت کے وزیر داخلہ نے تمام ریاستوں کو ایک انتباہ جاری کیا تھا جس میں انہیں ملک میں داعش کی طرف سے ممکنہ حملوں کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔
جمعرات کو نئی دہلی میں ایک ریلی میں مسلمانوں نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں داعش کے خلاف حکومت کے سخت مؤقف کے حمایت کی گئی تھی۔ شیعہ اور سنی دونوں مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اس مظاہرے میں حصہ لیا جس میں شام، ایران، عراق اور روس کے سفارتکاروں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھارتی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
اتوار کو کولکتہ میں مسلمانوں نے ایک اور ریلی نکالی جس میں شرکا نے داعش کی مذمت کی۔ ریلی کے شرکا نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں سے ایک پر لکھا تھا ’’داعش اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہے۔‘‘
نئی دہلی میں قائم مسلمان تنظیموں کی نمائندہ ’آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت‘ کے صدر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
’ مسلم برادری کی طرف سے اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں کو برداشت کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اسلام کے نام پر کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
بھارت کی وزارت داخلہ کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر داعش کی پرزور مہم کے بعد گزشتہ تین سالوں میں 23 مسلمان نوجوانوں نے داعش میں شمولیت کے لیے بھارت سے عراق اور شام کا سفر کیا۔
گزشتہ دو سالوں میں ملک بھر میں مسلمان علما اور رہنماؤں نے داعش کی مذمت کی ہے اور اسے دہشت گرد تنظیم کہا ہے۔ ستمبر میں اہم بھارتی مسلمان مذہبی رہنماؤں نے داعش کے خلاف دو فتوے جاری کیے جن میں اس کی سرگرمیوں کو اسلام کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا۔
حالیہ مہینوں میں بھارت کی مسجدوں مں خطبوں میں بھی لوگوں کو داعش سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
کولکتہ ریلی میں شریک عزیز مبارکی ان مسلمان رہنماؤں میں شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ داعش بھارت میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو گی۔
’’بھارت ایک وسیع ملک ہے جس میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ اگر ہماری وزارت داخلہ کے اعداد و شمار درست ہیں تو 10 لاکھ میں سے ایک مسلمان نے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بھارت کے مسلمان مشرق وسطیٰ کی اس تنظیم کی اپیلوں کا بالکل جواب نہیں دے رہے۔‘‘
علما کی ایک تنظیم ساؤتھ ایشیا علما کونسل کے سیکرٹری نے کہا کہ ’’اسی لیے ہمارے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ بھارتی مسلمان القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی حمایت نہیں کرتے۔‘‘
گزشتہ سال امریکہ ٹی وی چینل ’سی این این‘ سے ایک انٹرویو میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اگر القاعدہ بھارت میں اپنی دہشت گردی کا دائرہ بڑھانے کی کوشش کرے گی تو اسے بھارتی مسلمانوں سے کوئی حمایت نہیں ملے گی جو ’’بھارت کے لیے مرنے‘‘ کو تیار ہیں۔
مارچ میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ بھارتی مسلمان ’’محب وطن‘‘ ہیں اس لیے داعش ان پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہی ہے۔
نئی دہلی میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ مینیجمنٹ کے سربراہ اجے ساہنی نے کہا کہ ان کے خیال میں موجودہ صورتحال میں داعش بھارت کے لیے خطرہ نہیں۔
’’داعش نے جون 2014 سے اب تک بھارت کے بارے میں کئی بیانات دیے ہیں جن میں خراسان علاقے کے مجوزہ نقشے میں بھارت کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان کے تازہ ترین ’منشور‘ میں بھی بھارت کا ذکر شامل ہے۔ اس کا نہ ہونے کے برابر اثر ہوا ہے جس طرح گزشتہ19 سال میں القاعدہ کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کو ورغلانے کی کوششوں کا معمولی اثر ہوا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’یقیناً ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کسی غیر متوقع واقعے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر (بھارت) میں اس خطرے میں اضافے کا کوئی واضح اشارہ نہیں۔‘‘