ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ قبل داعش کی خودساختہ خلافت کے خلاف فتح کے اعلان کے بعد امریکی حمایت یافتہ افواج ابھی تک اس دہشت گرد گروپ کے آخری ٹھکانے میں موجود عسکریت پسندوں سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سیرئن ڈیموکریٹک فورسز کے ایک ترجمان نے منگل کے روز ایک ٹوئیٹ میں بتایا ہے کہ شمال مشرقی شام کے باغوز کے قصبے میں شدت پسندوں کے خاتمے کی کارروائیوں میں داعش کے ارکان کے خلاف آپریشن جاری ہے، جنھوں نے ابھی تک اپنے ہتھیار نہیں ڈالے۔
ترجمان، مصطفیٰ بالی نے کہا ہے کہ ’’ایس ڈی ایف نے باغوز اور اُس کے مضافات میں تلاشی کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ چند دہشت گرد ابھی تک باغوز کی پہاڑی کے قریب واقع غار کے اندر چھپے بیٹھے ہیں‘‘۔
ایک اور رپورٹ میں لندن میں قائم ’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا ہے کہ شام میں مبصرین کے خیال میں ایس ڈی ایف کے کنٹرول والے علاقوں میں داعش کے لڑاکوں اور کارندوں کی تعداد اندازاً 4000 سے 5000 تک ہو سکتی ہے‘‘۔
ایس ڈی ایف کے اہل کاروں نے 23 مارچ کو داعش کی خلافت کے خلاف فتح کا اعلان کیا تھا، جس سے قبل کئی راتوں تک باغوز میں کئی سو جنگجوؤں پر مشتمل دھڑوں کے خلاف شدید فضائی کارروائیاں کی گئیں، جنھوں نے قصبے کو واگزار کرانے کی کارروائی کے دوران ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا۔
ایس ڈی ایف کی فوجوں نے فوری طور پر علاقہ واگزار کرانے کی کوششیں شروع کر دیں، جس عمل کی نگرانی پر مامور اتحاد کے ترجمان، کرنل شین رائن نے کارروائی کو ’’دانستہ اور مفصل‘‘ قرار دیا ہے۔
لڑائی ختم نہیں ہوئی
اعلیٰ امریکی اہلکاروں نے بھی متنبہ کیا ہے کہ داعش کی خلافت کے خاتمے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ امریکی انٹیلی جنس کے اندازے بتاتے ہیں کہ ابھی بھی شام اور عراق میں داعش کے ’’لاکھوں‘‘ جنگجو موجود ہیں۔
ایس ڈی ایف کی جانب سے فتح کے اعلان سے کچھ ہی دیر بعد ایک سینئر دفاعی اہلکار نے دولت اسلامیہ کے لیے داعش کا نام استعمال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’اس مرحلے پر ہم نے کچھ دیر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ داعش کی حکمت عملی یہ ہے کہ عراق میں پوشیدہ سرکشی جاری رکھی جائے‘‘۔
اہلکار نے مزید کہا کہ ’’کوئی وجہ نہیں کہ اس بات کا گمان نہ کیا جائے کہ وہ شام کی جانب سے بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ ہمیں اس بات کی تشویش ہے کہ عراق کے مقابلے میں شام میں داعش کے جنگجوؤں سے نبردآزما ہونے کی ہماری استعداد کہیں کم ہے‘‘۔
صرف گذشتہ ہفتے، امریکی ایلچی برائے شام، جیمز جیفری نے اِنہی جذبات کا اظہار کیا تھا۔
بقول اُن کے، ’’داعش کے خلاف لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ وہ پھر سے چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں سر اٹھا رہے ہیں، اور نچلی سطح کی سرکشی کی آڑ میں کارروائیاں کر رہے ہیں‘‘۔