اسرائیل اور بحرین نے باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق،بحرین خطے کا چوتھا ملک ہے جس نے اسرائیل سے معمول کے سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں۔
امریکہ کے زیر اہتمام یہ معاہدہ، اتوار کے روز طے پایا جس کیلئے امریکی اور اسرائیلی عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلی سطحی وفد بحرین پہنچا۔
بحرین اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک باوقار تقریب میں' ابراہام ایکارڈز' نامی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے اسی معاہدے میں باضابطہ سفارتی تعلقات قائم گزشتہ ماہ ہی قائم کر لیے تھے جب کہ بحرین اور اسرائیل نے معاہدے میں مزید تفصیلات طے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اتوار کے روز ہونے والے دورے میں، خبر رساں ادارے، اے پی، کے مطابق، بظاہر یہ تفصیلات طے کر لی گئیں جس سے ایک دوسرے کے ملکوں میں سفارت خانے کھولنے اور سفیر متعین کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
دستخط کرنے کی تقریب میں، بحرین کے سفیر عبداللطیف ال زیانی کا کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی دورہ ہے تا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بارآور تعلقات کا آغاز ہو سکے۔
امریکی اور اسرائیلی وفود کی قیادت، امریکی وزیر خزانہ سٹیون منوچن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر میر بن شبت نے کی۔
میر بن شبت کا کہنا تھا کہ آج ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کیلئے پہلا باضابطہ قدم اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کھلے دل، گرم جوشی اور تپاک سے قبول کیا گیا۔
امریکی وزیر خزانہ سٹیو منوچن کا کہنا تھا کہ خطے میں استحکام کیلئے، خطے کے لوگوں اور ممالک کیلئے خوشحالی لانے کی جانب یہ ایک اہم قدم ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین سے معاہدوں کو صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اور نیتن یاہو کیلئے سفارتی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم انہیں فلسطین کی جانب سے سخت تنقید کا بھی سامنا ہے۔ فلسطینیوں کا موقف رہا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کو ایک آزاد مملکت نہیں مل جاتی تب تک عرب ممالک متحد ہو کر اسرائیل کو تسلیم نہ کریں۔
تاہم ان معاہدوں سے مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں جن میں کاروباری مواقع اور ایران کے بارے میں مشترکہ خدشات، فلسطینی مسئلے پر غالب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
فلسطینیوں نے امریکہ پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے اس سے اپنے روابط منقطع کر دیے ہیں کہ اس کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہے۔ اس کے بعد، امریکہ نے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط بنانا شروع کر دیے۔ امریکہ کو امید ہے کہ اس سے فلسطینیوں پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن بات چیت کے درمیان اپنے پرانے مطالبات پر زیادہ زور نہ دیں۔
ایک غیر معمولی ریکارڈنگ میں داعش نے اسرائیل کے عرب ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب پر صلیبی جنگ کرنے والے اور یہودیوں کے اطاعت گزار ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس سے پہلے مصر اور اردن دو ایسے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی معاہدوں پر دستخط کئے تھے۔ دیگر عرب ممالک، جو ممکنہ طور پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں، ان میں سوڈان، اومان اور مراکش شامل ہیں۔