امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ریاض میں نیا سفارت خانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
مائیک پومپیو نے بدھ کو واشنگٹن اور ریاض کے مابین اسٹریٹجک مذاکرات کے آغاز کے لیے آئے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں استقبال کیا۔ مائیک پومپیو نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔
وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے جاری کیے جانے والے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ریاض میں 26 ایکڑ پر محیط نیا سفارت خانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
ان کے بقول جدہ میں بھی نیا قونصل خانہ فعال ہو چکا ہے۔ جب کہ الظہران میں قونصل خانے کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب میں ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
مائیک پومپیو کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ان پر بعض امریکی سینیٹرز سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدہ سینیٹ سے پاس کروانے کی کوشش پر تنقید کر رہے ہیں۔ سینیٹ نے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے کو امریکی اخبار ' دی واشنگٹن پوسٹ' سے تعلق رکھنے والے سعودی صحافی جمال خاشوگی کے قتل اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے روک لیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کو آٹھ ارب ڈالرز سے زائد کے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ایران کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ان ہتھیاروں کی فراہمی کی ضرورت تھی۔
مائیک پومپیو نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو مزید ہتھیار بھی فراہم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ سعودی عرب کو ہتھیار فراہم کرنے کے تیز تر اقدامات پر یقین رکھتا ہے۔ یہ کوشش اس لیے ہے تا کہ ریاض اپنے شہریوں کا بہتر دفاع کر سکے اور امریکہ کے شہریوں کی ملازمتیں قائم رہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنان اور کئی قانون سازوں نے امریکہ سے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
'کارنیگی انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس' سے وابستہ یاسمین فاروق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ مائیک پومپیو نے بدھ کو کہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے دو طرفہ تعلقات کو وسیع کرنے اور ہتھیاروں کی فروخت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب شہزادہ فیصل نے ریاض کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے یمن میں فوجی کارروائی دفاع کے لیے کی تھی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایران کی حکومت دہشت گرد گروہوں کی مالی اور دیگر ذرائع سے مدد کر رہی ہے جس میں یمن بھی شامل ہے۔ یمن کے حوتہھی اب تک ایرانی ساختہ 300 سے زائد میزائل سعودی عرب پر داغ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدے پر گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس میں دستخط کیے تھے۔ اب امریکہ کے وزیرِ خارجہ سعودی عرب سے بھی ایسا کرنے کا اصرار کر رہے ہیں۔
مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا کہ امید ہے کہ سعودی عرب بھی تعلقات بحال کرنے پر غور کرے گا۔
انہوں نے اس معاہدے میں ریاض کی مدد پر بھی شکریہ ادا کیا۔
مائیک پومپیو نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب فلسطین کے رہنماؤں کو بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپسی کے لیے قائل کرے گا۔
اس حوالے سے 'کارنیگی انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس' سے وابستہ یاسمین فاروق کا کہنا تھا کہ یہ بات اہم ہے کہ مائیک پومپیو نے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات بحال ہونے پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا۔ اگرچہ ریاض نے اپنے تل ابیب کے ساتھ تعلقات اسرائیل فلسطین مسئلے سے مشروط کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عملی طور پر سعودی عرب نے اپنی پالیسی بہت حد تک تبدیل کر لی ہے۔ اس کے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے پر بھی خیالات میں فرق آیا ہے۔ ریاض اب اسرائیل سے تعلقات اور اسرائیل فلسطین تنازع پر مؤقف سے الگ الگ انداز سے دیکھ رہا ہے۔
جبکہ گزشتہ ماہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر امریکی کانگریس کی ایک سماعت میں 'بروکنگز انسٹیٹیوشن' کے بروس رایڈل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ 75 برس کے مقابلے میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات اس وقت بالکل مختلف ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے جو خارجہ پالیسی اختیار کی ہے وہ خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
ان کے مطابق یہ پالیسی مشرق وسطیٰ اور دنیا میں امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔