واشنگٹن —
اسرائیلی وزیر اعظم نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ نئی فلسطینی اتحادی حکومت کو تسلیم نہ کریں، جس میں حماس کا شدت پسند گروپ شامل ہوگا۔
بینجامن نیتن یاہو نے اتوار کے روز کہا کہ اتحادی حکومت ’دہشت گردی کو مضبوط کرے گی‘، کیونکہ حماس اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ کرتی ہے۔
اِس نئی فلسطینی حکومت کی تشکیل پیر کے روز متوقع ہے، جس سے قبل اپریل میں مغربی کنارے اور غزا پٹی کے رہنماؤں نے سیاسی تعاون پر سمجھوتا طے کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ نئی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور تشدد کی مذمت کرے گی۔
اتحادی حکومت تشکیل پانے سے حماس اور فتح کے متحارب گروپوں کے مابین سات سالہ تقسیم کا خاتمہ آجائے گا۔
فلسطینی صدر نے کہا ہے کہ حماس سے اتحاد کی پاداش میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف تعزیرات لاگو کی جائیں گی۔
تاہم، اسرائیلی کابینہ کے وزیر امیر پیریز نے کہا ہے کہ فلسطینی صدر عباس کو یہ موقع دیا جانا چاہیئے کہ وہ حماس کو امن کی راہ پر لگا سکیں۔
اِس نئی حکومت میں سیکولر فلسطینی اتھارٹی شامل ہے جو مغربی کنارے کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے، اور اُس کا متحارب شدت پسند اسلامی گروپ، حماس جو غزا کی پٹی پر حکمرانی کرتا ہے۔
یروشلم میں کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں بولتے ہوئے، مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ دنیا کو اس حکومت کی پذیرائی نہیں کرنی چاہیئے۔
نیتن یاہو کے بقول، حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔
مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ ’ایسی حکومت امن کو تقویت نہیں دے سکتی، وہ دہشت گردی کو ہی مضبوط کرے گی‘۔
ایک ماہ قبل اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کی ناکامی کے بعد، فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس کے ساتھ سات برس کی تلخی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حماس امن مذاکرات کا مخالف ہے اور اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔
لیکن، مسٹر عباس کا کہنا ہے کہ اُن کی امن کی پالیسیاں ہی حکومت کا سرکاری مؤقف رہے گا۔
سرکردہ فلسطینی مذاکرات کار، صائب اریکات نے کہا ہے کہ یہ حماس کو امن عمل میں شامل کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔
صدر عباس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے پہلے ہی اُنھیں آگاہ کردیا ہے کہ وہ نئی فلسطینی حکومت کا بائیکاٹ کرے گا۔
اسرائیل کی طرح، امریکہ بھی حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ لیکن، امریکہ ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ امریکی محکمہٴخارجہ کا کہنا ہے کہ وہ نئی حکومت کی تشکیل کا جائزہ لے کر ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا آیا امریکہ اُس کے ساتھ کام کر سکتا ہے یا نہیں۔
بینجامن نیتن یاہو نے اتوار کے روز کہا کہ اتحادی حکومت ’دہشت گردی کو مضبوط کرے گی‘، کیونکہ حماس اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ کرتی ہے۔
اِس نئی فلسطینی حکومت کی تشکیل پیر کے روز متوقع ہے، جس سے قبل اپریل میں مغربی کنارے اور غزا پٹی کے رہنماؤں نے سیاسی تعاون پر سمجھوتا طے کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ نئی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور تشدد کی مذمت کرے گی۔
اتحادی حکومت تشکیل پانے سے حماس اور فتح کے متحارب گروپوں کے مابین سات سالہ تقسیم کا خاتمہ آجائے گا۔
فلسطینی صدر نے کہا ہے کہ حماس سے اتحاد کی پاداش میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف تعزیرات لاگو کی جائیں گی۔
تاہم، اسرائیلی کابینہ کے وزیر امیر پیریز نے کہا ہے کہ فلسطینی صدر عباس کو یہ موقع دیا جانا چاہیئے کہ وہ حماس کو امن کی راہ پر لگا سکیں۔
اِس نئی حکومت میں سیکولر فلسطینی اتھارٹی شامل ہے جو مغربی کنارے کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے، اور اُس کا متحارب شدت پسند اسلامی گروپ، حماس جو غزا کی پٹی پر حکمرانی کرتا ہے۔
یروشلم میں کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں بولتے ہوئے، مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ دنیا کو اس حکومت کی پذیرائی نہیں کرنی چاہیئے۔
نیتن یاہو کے بقول، حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔
مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ ’ایسی حکومت امن کو تقویت نہیں دے سکتی، وہ دہشت گردی کو ہی مضبوط کرے گی‘۔
ایک ماہ قبل اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کی ناکامی کے بعد، فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس کے ساتھ سات برس کی تلخی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حماس امن مذاکرات کا مخالف ہے اور اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔
لیکن، مسٹر عباس کا کہنا ہے کہ اُن کی امن کی پالیسیاں ہی حکومت کا سرکاری مؤقف رہے گا۔
سرکردہ فلسطینی مذاکرات کار، صائب اریکات نے کہا ہے کہ یہ حماس کو امن عمل میں شامل کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔
صدر عباس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے پہلے ہی اُنھیں آگاہ کردیا ہے کہ وہ نئی فلسطینی حکومت کا بائیکاٹ کرے گا۔
اسرائیل کی طرح، امریکہ بھی حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ لیکن، امریکہ ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ امریکی محکمہٴخارجہ کا کہنا ہے کہ وہ نئی حکومت کی تشکیل کا جائزہ لے کر ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا آیا امریکہ اُس کے ساتھ کام کر سکتا ہے یا نہیں۔