اسرائیلی بحریہ اور ہیلی کاپٹروں نے چھ بحری جہازوں پر مشتمل اُس قافلے پر حملہ کر دیا ہے جو فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے کر غزہ کی پٹی جارہا تھا۔
اسرائیلی فوج نے امدادی کاررواں میں شامل 10 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی نیو ی کے کمانڈوز نے جو نہی امدادی کشتیوں کو غزہ کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کی اُن پر حملہ کردیا گیا۔
فوج کا کہنا ہے کہ قافلے میں شامل افراد نے کشتیوں میں داخل ہونے والے اسرائیلی فوجیوں پر خنجروں اور ڈنڈوں سے حملہ کردیا اور صورت حال اُس وقت سنگین ہو گئی جب فلسطین کے حامی ایک کارکن نے ایک کمانڈو سے ہتھیار چھین لیا ۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے جن میں فوجی اور امدادی کاررواں میں شامل کارکن شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس کارروائی میں مرنے والوں کی تعداد کم ازکم 16 ہے ۔
اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ جب اُس کی بحریہ کی کمانڈو فورس نے” فریڈم فلوٹیلا “ پر حملہ کیا تو امدادی کشتیاں اُس کی سمندری حدود سے باہر بین الاقوامی حدود میں موجود تھیں۔
ترکی کے ٹی وی چینل این ٹی وی نے کہا ہے کہ اسرائیلی جنگی جہازوں نے پیر کی صبح ”فریڈم فلوٹیلا“ نامی امدادی کاررواں میں شامل ایک کشتی پر فائرنگ شروع کردی اور ٹی وی پر دیکھائے جانے والے مناظر میں کئی افراد کو زخمی حالت میں دکھایا گیا۔
اس امدادی کاررواں کی قیادت ترکی کی سماجی وامدادی تنظیمیں کررہی تھیں اس لیے اسرائیلی حملے کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کاسلسلہ شروع ہو گیا ہے اور حکومت نے اسرائیلی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے اس کی وضاحت طلب کی ہے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے بحری قافلے پر اسرائیل کے ہلاکت خیز حملے کو ”قتل عام“ قراردیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے اور تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ فلسطین کے ٹی وی پر جار ی صدارتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہمیں آج شام کچھ مشکل فیصلے لینے ہوں گے۔“
یورپی یونین نے امدادلے جانے والی کشتیوں پر اسرائیل کے حملے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کی مکمل تحقیقات اورغزہ میں محصور فلسطینیوں کے لیے بلا رکاوٹ ، غیر مشروط ا مداد کی فراہمی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے فریڈم فلوٹیلا میں شامل تما م کشتیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعدان پر سوار افراد کو عارضی قید خانوں کی طرف منتقل کرنا شروع کردیا جہاں حکام ضرور ی کارروائی کے بعد زیر حراست لوگوں کو اُن کے ملکوں کو واپس بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
اسرائیلی نائب وزیر خارجہ نے الزام لگایا ہے کہ امدادی کاررواں میں شامل کشتیوں سے جدید ہتھیاربرآمد کیے گئے ہیں اور ان میں سوار افراد کا تعلق ”عالمی جہاد “میں مصروف تنظیموں حماس اور القاعدہ سے ہے۔
اسرائیل نے انتباہ کیا تھا کہ وہ امدادی قافلے کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دے گا ۔ فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کی طرف سے2007 ء میں غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل نے اس علاقے کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
اتوار کی شب میزائلوں سے لیس اسرائیل کی تین جنگی کشتیوں کو امدادی قافلے کو روکنے کے لیے حائفہ بیس سے روانہ کیا گیا تھا۔ امدادی کاررواں اتوار کو اپنے سفر پر روانہ ہو اتھا جبکہ اسرائیلی نیوی کے ریڈیو پر دی گئی وارننگ میں قافلے کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
فری غزہ موومنٹ اور ترکی میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کاررواں کابندوبست کیا ہے جس میں تین کشتیوں پر فلسطین کے حامی 600 کارکن اور تین کشتیوں پردس ہزار ٹن سامان موجود ہے۔ امدادی سامان میں ادویات کے علاوہ سیمنٹ اور تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہونے والا دوسر ا مواد شامل ہے جن کی غزہ میں ترسیل پر اسرائیل نے سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر پابندی لگا رکھی ہے۔
امدادی کارکنوں کاکہنا ہے کہ اس مواد کو غزہ میں ان گھروں کی تعمیر نو کے لیے استعمال کرنا مقصود ہے جو گزشتہ سال کے اوائل میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں تباہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے اسرائیل کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا کہ امدادی سامان کو ایک اسرائیلی بندر گاہ پر اتار دیں جہاں سے بین الاقوامی تنظیمیں اسے غزہ پہنچا دیں گی۔
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی تین سالہ ناکہ بندی نے غزہ کی پٹی میں مقامی معیشت کو تباہ کردیا ہے لیکن یہ اقدام علاقے پر حماس کی گرفت کمزور کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔