اسرائیل اور حماس کے درمیان جمعرات سے پانچ روزہ جنگ بندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے جب کہ اس سے قبل علی الصبح اسرائیل نے غزہ سے راکٹ داغے جانے کے بعد فضائی کارروائیاں کی تھیں۔
اسرائیل کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق کم از کم آٹھ راکٹ تین روزہ جنگ بندی ختم ہونے سے دو گھنٹے قبل داغے گئے جس کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں کاررائی کی۔
حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ان کے گروپ نے راکٹ نہیں داغے بلکہ انھوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
ادھر فلسطینی وفد کے سربراہ اعظم الاحمد کا کہنا ہے پانچ روزہ جنگ بندی پر اتفاق آخری مراحل میں پہنچ گیا ہے اور ان کے بقول یہ جنگ بندی بدھ کو نصف شب سے شروع ہو کر پیر تک جاری رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اوراسرائیلی مذاکرات کار بعض نکات پر متفق ہو گئے ہیں لیکن بعض معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکام کو اُمید ہے کہ آئندہ ہفتوں میں ایک حتمی معاہدے تک پہنچا جا سکے گا جسے عرب، خطے اور عالمی حمایت حاصل ہو گی۔
اسرائیل کی طرف سے اس پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
قبل ازیں اسرائیل کے وزیر دفاع یالون نے اپنی مسلح افواج کو کارروائیوں کے لیے تیار رہنے کا کہا تھا۔
انھوں نے متنبہ کیا تھا کہ جنگ بندی کے مستقبل کے بارے میں صورتحال واضح نہ ہونے کی وجہ سے اگر راکٹ باری شروع ہوتی ہے تو اسرائیلی فورسز دوبارہ لڑائی شروع کر دیں گی۔
حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل سات سال سے جاری غزہ کی ناکہ بندی ختم کرتا ہے تو وہ معاہدے کو تسلیم کر لے گا۔ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
آٹھ جولائی کو شروع ہونے والی لڑائی میں 1930ء سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جب کہ اسرائیل کے 67 افراد مارے گئے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے فون پر صلاح و مشورہ کیا ہے۔ تاہم وائٹ ہاوس نے اس کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔