|
فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل نے بدھ کے روز غزہ تنازع میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہونے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔
دو متصادم فریقوں کی طرف سے یہ الزامات امریکہ، مصر اور میزبان ملک قطر کی ثالثی میں جاری بالواسطہ بات چیت کے دوران لگائے گئےہیں۔
ایک طویل تعطل کے بعد بحال ہونے والے مذاکرات نے 14 ماہ سے جاری لڑائی میں جنگ بندی کی امید پیدا کی ہے۔
تاہم، مذاکرات کے تازہ ترین دور میں دونوں جانب سے پیش رفت کے حالیہ بیانات اور ثالثوں کی طرف سے اس سلسلے میں مسلسل حمایت کے باوجود معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کا سامنا ہے۔
بدھ کے روز دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام لگایا۔
پہلے حماس نے ایک بیان میں کہا کہ دوحہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات سنجیدہ انداز میں جاری ہیں لیکن غزہ کی پٹی پر قابض اسرائیل نے فوجیوں کی واپسی، جنگ بندی، قیدیوں اور بے گھر لوگوں کی واپسی سے متعلق نئی شرائط لگا دی ہیں۔ جو معاہدے میں تاخیر کاباعث بن رہی ہیں۔
تاہم عسکریت پسند تنظیم نے اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ نئی شرائط کی وضاحت نہیں کی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے فوری طور پر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ معاہدے کی راہ میں "نئی رکاوٹیں" پیدا کر رہا ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "دہشت گرد تنظیم حماس ایک بار پھر جھوٹ بول رہی ہے۔ پہلے سے طے شدہ سمجھوتوں سے انکار کر رہی ہے، اور مذاکرات میں نئی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔"
پیر کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ مذاکرات میں یرغمالوں کی رہائی کے لیے معاہدے کی جانب "کچھ پیش رفت" ہوئی ہے۔
منگل کو وزیر اعظم کے دفتر نے کہا تھا کہ اسرائیل کے نمائندے قطر سے "اہم مذاکرات" کے دور کے بعد واپس لوٹے ہیں۔
پچھلے ہفتے حماس اور دو دیگر فلسطینی عسکریت پسند گروپوں، اسلامی جہاد اور بائیں بازو کی پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین، نے ایک غیر معمولی مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے "پہلے سے زیادہ قریب" پہنچ گیا ہے، بشرطیکہ اسرائیل نئی شرائط عائد نہ کرے۔
غزہ میں اسرائیل کے یرغمالوں کے کچھ رشتہ داروں نے بدھ کے روز نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ یرغمالوں کو گھروں میں واپس لانے کے لیے معاہدہ کریں۔
اسرائیلی شہری شیرون نے، جن کے دو بھائی گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے دوران اغوا کیے گئے تھے، کہا،"یہ انہیں واپس لانے کا وقت ہے، نیتن یاہو، یہ آپ پر منحصر ہے... وقت قریب ہے، انتظار نہ کریں۔"
انہوں نے یہ بات تل ابیب کے یرغمالی چوک پر ایک بیان میں کہی۔
ادھر اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ شیرون کے اغوا کیے گئے دو بھائیوں میں سے ایک کی اسیری میں موت ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے مذاکرات بار بار رکاوٹوں کی نظر ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے متعدد ادوار کے باوجود مہلک لڑائی میں صرف ایک موقع پر جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا جو 2023 کے آخر میں ایک ہفتے تک جاری رہی۔
اس دوران اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے غزہ میں عسکریت پسندوں کے زیر حراست 80 اسرائیلیوں کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ، مزید 25 یرغمالیوں کو، جن میں زیادہ تر تھائی فارم ورکرز تھے، کو بھی رہا کیا گیا تھا۔
بعد میں ہونے والے مذاکرات کو کئی اختلافات درپیش رہے جن میں بنیادی مسئلہ غزہ میں دیرپا جنگ بندی کا قیام کا رہا ہے۔
دوسرا بڑا حل طلب مسئلہ جنگ کے بعد غزہ پر حکمرانی کا ہے جو فلسطینی قیادت سمیت ایک انتہائی متنازعہ معاملہ ہے۔
اسرائیل متعدد بار یہ کہ چکا ہے کہ وہ حماس کو دوبارہ کبھی بھی اس علاقے پر اقتدار کی اجازت نہیں دے گا۔
اخبار وال سٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک انٹرویو میں نیتن یاہو نے پچھلے ہفتے کہا: "میں حماس کو ہٹانے سے پہلے جنگ ختم کرنے پر راضی نہیں ہوں گا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل تل ابیب سے 30 میل دور غزہ میں انہیں اقتدار میں نہیں آنے دے گا۔ "ایسا نہیں ہونے والا ہے۔"
مزید یہ کہ نیتن یاہو غزہ کی مصر کی سرحد پر واقع فلاڈیلفی راہ داری سے اسرائیلی فوجیوں کو نہیں ہٹانا چاہتے۔
غزہ میں جنگ حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی جس میں اے ایف پی کے مطابق اسرائیل حکام نے کہا ہے کہ 1,208 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس سے پہلے اسرائیلی حکام نے 1400 لوگوں کی ہلاکت کا کہا تھا۔
حملے کے دوران عسکریت پسندوں نے تقریبا 250 افراد کو یرغمال بنا لیا اور انہیں غزہ لے گئے۔
مغویوں میں سے 96 افراد اب بھی غزہ میں قید ہیں جب کہ اسرائیلی فوج کے مطابق 34 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کے جوابی حملوں میں غزہ میں صحت کے حکام کے مطابق اب تک 45,361 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اور ہلاک شدگان میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد سمجھتا ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)
فورم