چھیاسی سالہ وکیل موشی مائرون تل ابیب کے نواح رہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ 21 سال قبل جب عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تھا اور مغربی اور عرب ملکوں کے اتحاد نے ان کے خلاف کارروائی کی تو عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے۔
مائرون کو وہ رات یاد ہے جب سائرن کی آواز آئی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ، گیس ماسک لگائے گھر کے تہ خانے میں پہنچ گئے۔ ایک میزائل صرف نو میٹر کے فاصلے پر ان کے ڈرائیو وے میں کھڑی کار پر لگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پانچ چھ مکان مکمل طور سے تباہ ہو گئے۔ سب گاڑیاں جل گئیں۔ میرا ور میری بیوی کا زندہ بچ جانا معجزے سے کم نہیں تھا۔‘‘
اسرائیل کے دشمنوں کی طرف سے جوابی کارروائی کی ان یادوں کے باوجود، اسرائیل کے اعلیٰ لیڈر آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ علاقے میں ایک اور ملک، ایران پر حملے کے لیے تیار ہیں تا کہ اسے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے سے روک سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی کارروائی آخری حربے کے طور پر کی جائے گی، اگر بین الاقوامی برادری نے پس و پیش سے کام لیا۔
وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ نیوکلیر ایران پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’نیوکلیئر اسلحہ سے لیس ایران اسرائیل کے لیے، علاقے کے لیے، اور دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
اسرائیل کے وزیردفاع ایہود براک نے حال ہی میں فوجی ماہرین کی ایک کانفرنس کو بتایا کہ موثر فوجی حملے کے لیے وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اس مسئلے سے جلد ہی، شاید یہ سال ختم ہونے سے پہلے ، نمٹا جانا چاہیئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایران اپنی اہم نیوکلیئر تنصیبات کو زیرِ زمین قلعے میں منتقل کر رہا ہے جسے انتہائی طاقتور بم سے بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا۔ ایرانی لیڈر کہتے ہیں کہ ان کا نیوکلیئر پروگرام بجلی پیدا کرنے اور میڈیکل ریسرچ جیسے پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور ان کا نیوکلیئر ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
لیکن ایران نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تووہ جوابی کارروائی کرے گا۔ تہران کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو اسرائیل تک بلکہ یورپ تک پہنچ سکتے ہیں۔ کانفرنس میں ایک ماہر نے کہا کہ تہران ایک ایسے میزائل پر کام کر رہا ہے جس کی پہنچ امریکہ تک ہو سکتی ہے۔
ایران کے امور کے ماہر ڈیوڈ میناشری کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں پورا علاقہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے ۔ ان کے مطابق ’’ایران پر حملہ کیا گیا تو اس کے ایک طویل عرصے تک تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی خاطر بہتر یہی ہوگا کہ دوسرے حل تلاش کیے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے حل موجود ہیں۔‘‘
مینا شری کا خیال ہے کہ پابندیوں اور بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کرنا چاہیئے تاکہ ایرانی حکومت نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام پر مذاکرات کرنے اور اسے ختم کرنے پر مجبور ہو جائے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کا یکطرفہ طور پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن وہ اس قسم کی باتیں رائے عامہ کو ہموار کرنے اور اتحادی ملکوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کر رہا ہے تا کہ وہ ایران پر اور زیادہ سخت پابندیاں عائد کردیں۔
لیکن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، اعلیٰ اسرائیلی عہدے داروں کا خیال ہے کہ پابندیوں سے ایران کو اپنے نیوکلیئر عزائم سے باز رہنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکے گا۔ بعض دوسرے لوگ، جیسے فوجی تاریخ کے پروفیسر مارٹن وان کریویلڈ کہتے ہیں کہ فوجی حملے سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو محض چند برسوں کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو یہ بات قبول کر لینی چاہیئے کہ ایک نہ ایک دن ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ انھون نے کہا کہ’’اس بات کا امکان ہے کہ ایرانی کہیں کہ یہ نیوکلیئر مسئلہ ہمارے لیے درد سر بن گیا ہے۔ لہٰذا، ہمیں جلد از جلد بم بنا لینا چاہیئے اور ساری دنیا کو بتا دینا چاہیئے کہ ہمارے پاس بم موجود ہے۔ پھر کوئی ہمارے قریب نہیں آ سکے گا۔‘‘
لیکن تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز کےافرائم کام کہتے ہیں کہ ایران کو نیوکلیئر بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی اجازت دینا تباہ کن ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس طرح مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کم ہو جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملک، جیسے مصر، سعودی عرب، یا ترکی، شام، اور شاید عراق اس دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔‘‘
اگر اسرائیل ایران کے خلاف فوجی حملہ کرتا ہے، تو بھی، ناقدین کہتے ہیں کہ وہ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حملہ آور جہازوں کو ایک ہزار کلو میٹرز دور ایران تک پہنچنے کے لیے، راستے میں ایندھن لینا پڑے گا۔ اور ایران کے ہمسایہ ملکوں کے اوپر پرواز کے لیے اسرائیل کو سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لوگ ایران پر حملے کے بارے میں متفق نہیں ہیں۔ ایک حالیہ جائزے میں، 43 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ حملے کے حق میں ہیں جب کہ 41 فیصد نے کہا کہ وہ اس کے خلاف ہیں۔
تاہم سروے میں شامل دو تہائی لوگوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ایران بالآخر نیوکلیئر ہتھیار تیار کر لے گا۔ یروشلم کی ایک سڑک پر سیلز مین جاناتھن فشر نے کہا کہ ’’میرے خیال میں جنگ ہو کر رہے گی۔ اسرائیل میں جنگ ایک نہ ایک دن ہونی ضروری ہے۔ کب ہوگی، یہ میں نہیں جانتا۔‘‘
پاسکل رائے حال ہی میں اسرائیل میں آباد ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ’’کاش کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔ میں مذاکرات کے بغیر، فوجی حملے کے بالکل خلاف ہوں۔‘‘
21 سال پہلے جب یانیو شیمیش کے فلیٹ پر اسکڈ میزائل آکر لگا، تو ان کی عمر صرف 14 برس تھی۔ وہ آج بھی اس حملے کے ذہنی صدمے سے نہیں نکل سکے ہیں، اور کام نہیں کر سکتے۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں، وہ ہمیشہ خوفزدہ اور پریشان رہتے ہیں۔ وہ اپنے فلیٹ سے باہر نہیں نکلتے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔ بہت سے اسرائیلیوں کی طرح ، ان کی اُمید بھی یہی ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان ٹکراؤ زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھے گا۔