رسائی کے لنکس

امن عمل میں مسئلہ یروشلم کی اہمیت


صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کے درمیان بات چیت میں تمامتر توجہ ایران کے مبینہ نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام پر مرکوز رہی ۔ مشرق وسطیٰ کے امن کے عمل کو جو تعطل کا شکار ہے، بہت کم وقت دیا گیا ۔ امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بنیادی مسئلے کو طے کرنا ہوگا۔

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کی تلاش میں جو بنیادی مسائل حائل ہیں ان میں ایک مسئلہ یروشلم کی حیثیت کا ہے ۔

اسرائیل نے مغربی یروشلم پر 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم پر اردن کا قبضہ تھا لیکن 1967ء کی چھہ روزہ جنگ کے بعد، اسرائیل نے اسے بھی ضم کر لیا۔ اسے مقبوضہ علاقہ سمجھا جاتا ہے ۔

اسرائیل نے یروشلم کو اپنا دائمی ، نا قابلِ تقسیم دارالحکومت قرار دے دیا ہے۔ لیکن فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ یروشلم میں کوئی غیر ملکی سفارتخانے نہیں ہیں ۔ ۔ تمام سفارتخانے تیل ابیب میں ہیں۔ بین الاقوامی اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم کو ضم کیے جانے کے اقدام کو تسلیم نہیں کرتی۔ واشنگٹن کے خیال میں مشرقی یروشلم کی حیثیت کا تعین اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کیا جانا چاہیئے۔


ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارت کی نامزدگی کے امید وار، نیوٹ جنگرچ نے حال ہی میں اسرائیل کی حامی ایک تنظیم کو خطاب کرتے ہوئے، یروشلم کے مسئلے کو اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’صدر بننے کے بعد پہلے ہی روز، میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے ایگزیکیوٹو آرڈر پر دستخط کردوں گا۔‘‘

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ آپ کو اسرائیلی حکومت سے مشورہ کرنا ہوگا۔ ہم یہ کام مناسب طریقے سے کرنا چاہتے ہیں، لیکن میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکی سفارت خانہ کسی ملک کے دارالحکومت میں کیوں نہیں ہے۔‘‘

نیو یارک یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے ماہر، الون بین میئر کہتے ہیں کہ جنگرچ کا بیان ایک سیاسی تقریر کا حصہ ہے اور اس کا مقصد امریکی یہودیوں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ ان کے مطابق ’’اگر وہ صدر بن جاتے ہیں، جس کا اس مرحلے پر بہت کم امکان ہے، تو شاید وہ سفارت خانے کو منتقل نہیں کریں گے۔ بہت سے صدور نے، جب وہ انتخاب لڑ رہے تھے، اسی قسم کے بیانات دیے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بل کلنٹن نے ایسا ہی بیان دیا تھا۔ جارج ڈبلیو بُش نے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سے ملتے جلتے بیان دیے تھے۔ لیکن انھوں نے سفارت خانہ منتقل نہیں کیا کیوں کہ جب وہ وائٹ ہاؤس میں پہنچ جاتے ہیں، تو وہ اس قسم کے اقدام کے نتائج کو سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح پوری عرب دنیا امریکہ سے دور ہو جائے گی اورامریکہ محض علامتی وجوہ کی بنا پر عرب دنیا سے دور ہونا نہیں چاہتا۔‘‘

لندن اسکول آف اکنامکس میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر، فواز جیرجیس اس خیال سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سفارت خانے کی منتقلی امریکہ کے لیے صحیح معنوں میں بہت بڑا اقدام ہو گا جس سے امریکہ کے اہم مفادات کو نہ صرف عرب دنیا میں بلکہ پوری مسلمان دنیا میں نقصان پہنچنے کا امکان ہے کیوں کہ یروشلم نہ صرف یہودیوں کے لیے، بلکہ فلسطینیوں اور عربوں اور مسلمانوں کے علاوہ کروڑوں عیسائیوں کے لیے بھی مذہبی، علامتی اور تہذیبی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

یروشلم کے مسئلے کے حل کے لیے جو اقدامات کرنے ہوں گے، جیرجیس ان کا خاکہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘اصل بات یہ ہے کہ امریکہ کو اپنا سفارت خانہ اس وقت تک یروشلم میں منتقل نہیں کرنا چاہیئے جب تک کہ کوئی امن سمجھوتہ نہیں ہو جاتا اور دونوں آبادیوں کو، دونوں الگ الگ شناخت رکھنے والوں کو اپنا اپنا دارالحکومت نہیں مل جاتا، یعنی مشرقی یروشلم فلسطینیوں کے لیے اور مغربی یروشلم یہودیوں کے لیے۔‘‘

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مستقبل ِ قریب میں ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل اس وقت ایک جگہ رکا ہوا ہے، اور امریکہ میں صدارتی انتخاب کے سال کے دوران، کسی پیش رفت کی توقع نہیں۔

XS
SM
MD
LG