انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی اعلیٰ سربراہ نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے شدت پسند غزہ میں ممکنہ جنگی جرائم کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
نوی پلئی نے جمعرات کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسرائیل نے گھروٕں، اسکولوں، اسپتالوں اور اقوام متحدہ کے احاطے پر حملے کیے ہیں، جو بظاہر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری، بقول اُن کے،’عدم احتساب کا یہ رویہ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتی‘۔
ساتھ ہی، اُنھوں نے اسرائیل کے اندر اندھادھند راکیٹ داغنے اور اقوام متحدہ کے علاقوں میں ہتھیار ذخیرہ کرنے پر، حماس کی مذمت کی۔
اقوام متحدہ کی نکتہ چینی کے باوجود، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے (جمعرات کے دِن) کہا کہ اُن کے ملک کی افواج نے سرحد پار سے شدت پسندی کے لیے استعمال ہونے والی سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کا تحیہ کر رکھا ہے، بقول اُن کے، ’چاہے جنگ بندی ہو یا نہ ہو‘۔
دفاع سے متعلق ایک اہل کار نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیلی افواج حماس کی طرف سے استعمال کی جانے والی سرنگوں کو تباہ کیا جانا ’چند ہی دِنوں کا معاملہ ہے‘۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ غزہ کی کارروائی میں اصل توجہ اُنہی سرنگوں پر دی جا رہی ہے۔
جمعرات کو بھارت میں ایک بیان میں،امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کا کوئی ’وعدہ نہیں کیا جاسکتا‘۔ تاہم، امریکہ کو امید ہے کہ اس کا حصول ممکن ہے۔
شدت پسندوں کی طرف سے غزہ سے راکیٹ فائر کرنے کے جواب میں، اسرائیل نے آٹھ جولائی کو فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک، اس تنازعے میں فلسطینی علاقے کے 1300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ 56 اسرائیلی فوجی اور تین اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔