اسرائیلی وزیر اعظم، بینجامن نیتن یاہو نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ یروشلم کی عبادت گاہوں میں طویل مدت سے جاری عبادات سے متعلق روایات کو برقرار رکھا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ مسلمان الاقصیٰ مسجد میں نماز کی ادائگی کرتے رہیں گے۔
بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر، اتوار کے روز مسٹر نیتن یاہو نے تحمل اور برداشت کے رویے پر زور دیا، ایسے میں جب فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی پولیس کے درمیان تقریبا ً روزانہ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہودی یروشلم کے ٹیمپل ماؤنٹ کو اپنا متبرک ترین مقام سمجھتے ہیں، کیونکہ روایات کے مطابق، بائیبل کے ادوار میں یہ عبادت گاہ موجود تھی، جب کہ مسلمان سعودی عرب میں واقع مکہ اور مدینہ کے متبرک شہروں کے بعد اِسے اپنا تیسرا متبرک ترین مقام گردانتے ہیں۔
اپنی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اسرائیل کے رہنما نے کہا کہ یہ مقام تمام مذاہب کے لیے کھلا رہے گا، جو پیغام، بقول اُن کے، فلسطینی صدر محمود عباس تک پہنچایا گیا ہے۔
مسٹر عباس نے اسرائیلی لیڈر کی طرف سے اس معاملے پر ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے کے اعلان کو ’صحیح سمت ایک درست قدم‘ قرار دیا ہے۔
مشرقی یروشلم کی پہاڑی کا معاملہ ایک طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے، جس علاقے پر 1967ء کی جنگ کے دوران قبضہ کیا گیا تھا۔ فلسطینی اس علاقے کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارلحکومت بنانے کے خواہاں ہیں۔
یہودی اور مسلمان دونوں کو وہاں جانے کی اجازت ہے، لیکن عبادت کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے۔
سرگرم یہودی کارکن اِن قوائد میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ اُن کو اس مقام پر عبادت کا حق حاصل ہوسکے۔
اسرائیلی سلامتی افواج اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کے واقعات کا آغاز گذشتہ ماہ اُس وقت ہوا جب اسرائیلی پولیس نے ایک مسلح فلسطینی کو گولی مار کر ہلاک کیا، جس نے یہودیوں کے انتہائی قدامت مذہبی پیشوا کو زخمی کیا تھا۔ اس یہودی پیشوا نے ٹیمپل ماؤنٹ پر یہودیوں کے عبادت کے مطالبے کے حق میں منعقدہ ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔
دریں اثنا، اسرائیل نے غزہ کے ساتھ دو سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دیا ہے۔ غزہ بحیرہٴروم کے ساتھ واقع علاقہ ہے، جہاں فلسطینی آباد ہیں۔