اسرائیلی سلامتی افواج نے ایک فلسطینی شخص کا گھر مسمار کیا ہے جس پر گذشتہ ماہ چھوٹی ٹریک والی ٹرین کے اسٹاپ پر حملے کرکے دو افراد کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔
اِس گھر کو بدھ کی علی الصبح شمالی یروشلم کے سلوان کے علاقے میں گرایا گیا، جس کے دونوں کمرے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
یہ گھر مسلمانوں کی متبرک الاقصیٰ مسجد اور یہودیوں کے ٹیمپل ماؤنٹ کے مقدس مقام کے قریب واقع ہے، جہاں حالیہ مہینوں کے دوران تناؤ کے ساتھ ساتھ جھڑپیں اور احتجاج کے واقعات نے جنم لیا ہے۔
سکیورٹی فورسز کا یہ اقدام وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کے اُس بیان کے بعد سامنے آیا، جس واقع میں منگل کو یروشلم کی ایک یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرکے پانچ افراد کو ہلاک کرنے پر، دو فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کے گھروں کو گرانے کا کام تیز کیا جائے۔
حقوق انسانی کے گروپ، ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے اس حربے پر تنقید کرتے ہوئے، اِسے مشتبہ خاندانوں کے خلاف ’اجتماعی سزا‘ قرار دیا، جو بات بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔
گروپ نے منگل کے روز یہودی عبادت گاہ پر کیے جانے والے حملے میٕں ملوث افراد کی بھی مذمت کی ہے، جسے ’انسانیت کے بنیادی اصولوں کی سریح خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا۔
حملے میں ملوث یہ مشتبہ فلسطینی بندوقوں، چاقؤں اور چھروں سے مسلح تھے، جب اُنھوں نے عبادت میں مصروف لوگوں پر وار کیا۔ بعدازاں، پولیس نے اُنھیں گولی مار کر ہلاک کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے حملے کی مذمت کی ہے۔ تاہم، حماس کے شدت پسند گروہ نے اس پر خوشی منائی، اور اِسے فلسطینی علاقے پر اسرائیلی قبضے کا بدلہ قرار دیا۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ بے گناہ شہریوں پر حملے کا کوئی جواز نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کو تشدد کو مسترد کرنے اور امن تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیئے۔