اسرائیل نے ہزاروں فلسطینی کارکنوں کو دو ہفتوں میں پہلی مرتبہ غزہ سے ایریز کراسنگ (Erez crossing)کے ذریعے گزرنے کی اجازت دے دی ہے ۔غزہ کے مکین اس راستے سے اسرائیل میں داخل ہوتے ہیں ۔ جمعرات کے روز دو ہفتوں میں پہلی بار اس چوکی کو کھول دیا گیا جس کے ذریعے ہونے والی آمدورفت کو پرتشدد مظاہروں کے بعدبند کر دیا گیا تھا۔ اس ناکہ بندی نے پورے علاقے کو بری طرح متاثر کیا تھا۔
اسرائیلی حکام نے ابتدائی طور پر 15 ستمبر کو یہودیوں کے نئے سال کی تعطیلات کے لیے آمدورفت کے اس راستے کو بند کر دیا تھا جو غزہ کی پٹی سے پیدل اسرائیل آنے والوں کے لیے واحد راستہ ہے۔
اس بندش میں تشدد آمیز مظاہروں کے درمیان سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے توسیع کر دی گئی تھی۔حکام نے بدھ کی شام کو اعلان کیا کہ کراسنگ کو کارکنوں کے لیے جمعرات کو دوبارہ کھول دیا جائے گاجس کے بعد صبح کے وقت ہزاروں لوگ قطار میں کھڑے نظر آئے۔
اے ایف پی کے ایک نمائندے نے صبح سویرے ہی اس راستے پر فلسطینیوں کے ہجوم کو انتظار کرتے دیکھا۔ ان میں متعدد ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے کمپلیکس ہی میں رات گزاری تھی۔
اسرائیل کے اہم تجارتی شہر تل ابیب میں کام کرنے والے عونی ابو اودا نے کہا کہ ’’ ہمیں آدھی رات کو معلوم ہوا کہ ایریز کراسنگ کو آج کھول دیا جائے گا اس لیے میں صبح ایک بجے سے یہاں انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
فلسطینی ٹریڈ یونینوں نے کہا کہ اس چوکی کا دوبارہ کھلنا ان مزدوروں کے لیے ایک ’’مثبت قدم‘‘ ہے جن کیلئے غزہ کی پٹی کے مقابلے میں اسرائیل میں روزگار کے بہتر مواقع ہیں ۔ غزہ کی پٹی میں معاوضے کم ہیں اور بے روزگاری بھی عروج پر ہے۔
تقریباً چھ ہزار فلسطینی کارکن مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے اس چوکی سے گزرے ۔یہ تفصیل کراسنگ پر موجود ایک فلسطینی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرخبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتائی ۔وہ صحافیوں سے بات کرنےکے مجاز نہیں تھے۔
فلسطینی شہری امور کے لیے ذمہ دار اسرائیلی دفاعی ادارے کوگیٹ (COGAT) نے گزشتہ ہفتےبتایا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کے تقریباً 18,500 باشندوں کو ورک پرمٹ جاری کیے ہیں۔
'کو گیٹ' نے اس کراسنگ کی بندش میں اس وقت توسیع کر دی تھی جب اسرائیل کے ساتھ سرحد پر روزانہ مظاہرے ہوئے اور اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد مظاہرین ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔
اسرائیلی فوج ایسی جھڑپوں کے دوران اکثر حماس کی فوجی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ڈرون حملے کرتی ہے۔حماس کا غزہ کی پٹی پر کنٹرول ہے۔
’’اجتماعی سزا‘‘
'ایریز' کراسنگ کے دوبارہ کھلنے پر فلسطینی کارکنوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
اسرائیل کے ساحلی شہر جفا کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ایمن الریفی نے کہا کہ وہ اس چوکی کے کھلنے پر بہت خوش ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔الریفی کہتے ہیں کہ ’’ میں امید کرتا ہوں کہ فلسطینی کارکن کسی تنازعے سے دور رہیں گے کیونکہ ایریزچوکی بند ہونے کی صورت میں ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
فلسطینی ٹریڈ یونین کے سربراہ سامی عمیس نے کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ’’مزدوروں کوچوکی پار کرنے سے روکنا ایک اجتماعی سزا تھی کیونکہ غزہ کی پٹی میں مزدوروں کے ساٹھ فیصد خاندان غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گزارتے ہیں ۔‘‘
یہ کراسنگ عام طور پر اختتام ہفتہ یعنی جمعے اور ہفتے کے روز کارکنوں کے لیے بند رہتی ہے۔
اس حالیہ بندش کے دوران طبی علاج کے خواہشمند مریضوں اور غیر ملکیوں کو یہ کراسنگ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن غزہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں فلسطینی کارکنوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
برسوں کی ناکہ بندی
غزہ کی پٹی میں تقریباً 2.3 ملین یعنی تئیس لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔اور اس علاقے میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پرتشدد مظاہرے ہوئے ۔مظاہرین نے ٹائر وں کو نذر آتش کیا اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کیا اور پٹرول بم استعمال کئے جس کے رد عمل میں آنسو گیس اور گولیوں کا استعمال کیا گیا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 13 ستمبر سے غزہ میں ہونے والے تشدد میں سات فلسطینی ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔حماس گروپ نے 2007 میں فلسطینی علاقے کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد اسرائیل نے غزہ کی فضائی، زمینی اور سمندری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور عسکریت پسندوں کے درمیان وقفے وقفے سے مسلح تصادم ہوتا رہتا ہے۔
مئی کے مہینے میں اسرائیلی فضائی حملوں اور غزہ پر راکٹ فائر کے تبادلے میں 34 فلسطینی اور ایک اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے ۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ سے منسلک تشدد میں گزشتہ سال کے اوائل سے اضافہ ہوا ہے اور اس سال اب تک اس تنازعے میں کم از کم 242 فلسطینی اور 32 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔)
فورم