سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امن کا معاہدہ ہو سکتا ہے؟ یہ بات اب سے چند برس پہلے سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔ لیکن جمعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ایک تاریخی پیش رفت کے اس مرحلے پر پہنچ گیا ہے جو سعودی عرب کے ساتھ ایک امن معاہدہ پر منتج ہوسکتا ہے۔
تقریباً 25 منٹ کی تقریر کے دوران ان کا لب و لہجہ مسلسل رجائیت پسندانہ رہا۔ اور انہوں نے حاضرین کے سامنے متضاد نوعیت کے نقشے پیش کیے، جن میں دکھایا گیا تھا کہ 1948 میں اپنے قیام کے وقت اسرائیل کس قدر تنہا تھا۔ اور صرف چھ ملک تھے جنہوں نے اس کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھے اور ان میں بھی چار ملک وہ ہیں جنہوں نے ابراہام معاہدوں کے تحت 2020 میں ایسا کیا۔
نیتن یا ہونے کہا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ابراہام معاہدے امن کے ایک نئے دور کے آغاز کی نوید بنے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہم اس سے زیادہ ڈرامائی پیش رفت کے قریب ہیں ۔ اور وہ ہے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی امن۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن، صحیح معنوں میں ایک بالکل نئے مشرق وسطی کو جنم دے گا۔
اس قسم کے ایک معاہدے کی راہ میں متعدد رکاوٹیں ہیں۔ جن میں سعودی عرب کے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے پر پیش رفت کا مطالبہ بھی شامل ہے ۔یہ نیتن یا ہو حکومت کے لیے ایک بہت مشکل کام ہے جو اسرائیل کی تاریخ کی ایک انتہائی سخت گیر حکومت ہے۔ سعودی عرب، امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے کا بھی خواہاں ہے۔ اور اپنے سویلین نیوکلیر پروگرام کی تعمیر میں بھی مدد چاہتا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان نے اس ہفتے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں فریق ایک معاہدے کے قریب ہو رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے امریکی قیادت میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ سعودی عرب، فلسطینیوں کے لیے در حقیقت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
نیتن یا ہو نے کہا کہ فلسطینی ایک وسیع امن سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہیں اس کا حصہ ہونا چاہیے لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس عمل کو ویٹو کرنے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے ، جنہوں نے جمعرات کے روز جنرل اسمبلی سے خطاب کیا، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے تک پہنچنے کے لیے کوششوں کا براہ راست کوئی حوالہ نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے اسرائیلی فلسطینی جھگڑے کے سب سے بڑے سبب کے بارے میں اپنا موقف دہرایا جو بقول ان کے، ابراہام معاہدوں پر دسخطوں کے بعد سے بدتر ہو گیا ہے۔
محمود عباس کے الفاظ تھےکہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی لوگوں کو ان کے پورے اور جائز قومی حقوق دئیے بغیر مشرق وسطٰی میں امن قائم ہو سکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)
فورم