اسرائیل کا حکومتی اتحاد ملک کی عدلیہ میں اصلاحاتی تبدیلیاں لانے کے اپنے ایک متنازع منصوبے کو ملک کی فوج کی جانب سےبڑھتی ہوئی مخالفت اور رواں ہفتے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے ایک متوقع سلسلے کے باوجود منظور کروانے والی ہے ۔ اس منصوبے کا بل ایک نیم فوجی کمیٹی نے تیار کیا ہے جو حکومت کے کچھ فیصلوں کی عدالتی نگرانی کومحدود کر دے گا۔
اسرائیل کی ائیر فورس اور سائبر وار فئیر سمیت فوج کے ایلیٹ یونٹس کے ریزرو فوجیوں کی طرف سے اس بل پر شدید تنقید سامنے آئی ہے ۔بہت سوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ تبدیلیاں لائی گئیں تو وہ ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوں گے ۔
اسرائیل کے ریزرو فوجیوں نے جو ملک کی فوج کا ایک انتہائی اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں ، اس سال کے شروع میں وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کو اس منصوبے کو عارضی طور پر روکنے پر مجبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ بل متوقع طور پر اگلے ہفتے پیرا ملٹری فوج کی ایک حتمی ووٹنگ کے لیے پیش ہو گا، اور اس کے ردعمل میں امکان ہے کہ ایک بڑا احتجاج کیا جائے گا، جس سے کاروبار زندگی دن بھر کے لئے معطل ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے ایسے ہی مظاہروں کے باعث ٹریفک مفلوج ہو گیا تھا ، اسرائیل کا مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈہ بند ہو گیا تھا اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔
نیتن یاہو کی قوم پرست اور مذہبی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے عدالتی نظام کی تبدیلیوں کے بل نے اسرائیل میں گہری تقسیم پیدا کر دی ہے اور اسے نہ صرف ایک بد ترین اندرونی بحران میں مبتلا کر دیا ہے ، بلکہ اس کے سب سے اہم اتحادی امریکہ تک کی طرف سے تشویش کو جنم دیا ہے۔
نتین یاہو نے مارچ میں تبدیلیوں کی اپنی کوشش کو اس وقت عارضی طور پر روک دیا تھا جب انہیں بڑے پیمانے پر مظاہروں ، مزدوروں کی ہڑتالوں کا سامنا ہوا جن کے باعث بیرون ملک پروازیں اور دوسرے سیکٹرز متاثر ہوئے اور جب ریزرو فوجیوں نے بل کو آگے بڑھانے کی صورت میں ڈیوٹی پر حاضر نہ ہونے کا عزم ظاہر کیا ۔ اور اب جب نیتن یاہو کی حکومت عدالتی اصلاحاتی تبدیلیوں کے بل کو پھر سے منظور کروانے کی کوشش کر رہی ہے ، ایسے ہی دباو پھر سامنے آرہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ایک مقصد اس عدالتی نظام پر لگام ڈالناہے، جسے وہ حد سے زیادہ مداخلت پسند سمجھتی ہے اور دوسرا منتخب عہدیداروں کے اختیارات کی بحالی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل میں منتخب نمائندوں کے مواخذے کے نازک نظام کو بری طرح متاثرکرے گا اور ملک کو آمریت کی طرف دھکیل دے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ا ب جب نتن یاہو پر بد عنوانی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہاہے، ان کی جانب سے انصاف کے نظام کو متزلزل کرنے کی کوشش مفادات کے ٹکراؤ کی غماز ہے ۔
نتن یاہو نےپیر کواپنی کابینہ کے ایک اجلاس میں گفتگوکرتے ہوئے اپنے اس ترمیمی بل کا دفاع کیا ، جو اسرائیل کی عدالتوں کو منتخب عہدے داروں کے کئے گئے فیصلوں کی معقولیت کی جانچ پڑتال سے روک دے گا ۔
انہوں نے اسرائیل کی فوج میں مخالفت کے حالیہ سلسلے کی بھی مذمت کی ۔
انہوں نے کہا کہ ،“ جمہوریت میں فوج منتخب حکومت کی ماتحت ہوتی ہے اور اس وقت حالات اس کے برعکس ہیں ۔ یہ نافرمانی جمہوریت اور قانون سے متصادم ہے۔ “
اس سال کے شروع میں اس بل پر تنقید کی ایک بڑھتی ہوئی لہر کے باعث اسرائیل کے وزیر دفاع ، یوو گیلانٹ کو اس کی مخالفت پر مجبور ہونا پڑا تھا ،جنہیں بعد میں ان کی اس نافرمانی پر نتن یاہو نے برخواست کر دیا تھا مگر اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور اسرائیلی وزیر اعظم کو قانونی تبدیلیوں کو روکنا اور گیلانٹ کو بحال کرنا پڑا۔
نقاد کہتے ہیں کہ معقولیت کے معیار کی جانچ پڑتال ختم کرنے کے نتیجے میں حکومت کو نااہل نمائندوں کو کسی نگرانی کے بغیر اہم عہدوں پر تعیناتی کا اختیار مل جائے گا ۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے نتن یاہو کے لیے موجودہ اٹارنی جنرل کو برخواست کرنے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے ۔ جنہیں نیتن یاہو کے حامی اس منصوبے کا ایک بڑا مخالف سمجھتے ہیں ۔ دوسرے نیتن یاہو کو ایسے قانونی عہدے داروں کی تعیناتی کا اختیار مل جائے گا جو انہیں اپنے خلاف چلنے والے بد عنوانی کے مقدمات سے بری کروانے میں سہولت مہیا کر سکتے ہیں ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)