رسائی کے لنکس

نیتن یاہو کی واشنگٹن روانگی، تجزیہ کاروں کی اس دورے میں دلچسپی


اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو واشنگٹن کے دورے پر آ رہے ہیں جہاں وہ کانگریس سے بھی خطاب کریں گے۔
اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو واشنگٹن کے دورے پر آ رہے ہیں جہاں وہ کانگریس سے بھی خطاب کریں گے۔
  • اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو واشنگٹن کے دورے پر آ رہے ہیں۔
  • وہ اس دورے میں امریکی کانگریس سے بھی خطاب کریں گے۔
  • ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اس دورے کو اسرائیل میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
  • غزہ جنگ اور یرغمالوں کی واپسی میں ناکامی کے باعث اسرائیل میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو چکے ہیں۔
  • تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ صدر بائیڈن کی جانب سے صدارتی دوڑ سے دستبرداری کے بعد اپنے اس دورے میں نیتن یاہو بائیڈن اور ٹرمپ سے تعلقات میں توازن رکھنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔

ویب ڈیسک۔ اسرائیلی وزیراعظم واشنگٹن کے اپنے دورے کے لیے پیر کے روز ایک ایسے موقع پر روانہ ہوئے جب صدارتی دوڑ سے صدر بائیڈن کی دستبرداری کے بعد سیاسی فضا بدلی ہوئی ہے اور دوسری جانب اسرائیل کو حماس کے ساتھ جنگ کا دائرہ لبنان سے یمن تک پھیلنے کا خطرہ درپیش ہے۔

طیارے میں سوار ہوتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ وہ واشنگٹن میں اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر زور دیں گے اور امریکی چاہے جسے بھی اپنا صدر منتخب کریں، اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا کلیدی اتحادی رہے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کے دشمن یہ جان لیں کہ امریکہ اور اسرائیل ایک ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے اس دورے میں بائیڈن سے ملاقات کریں گے اور اسرائیل کے لیے حمایت پر ان کا شکریہ ادا کریں گے۔

بائیڈن کے شیڈول سے واقف ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ تصدیق کی کہ صدر وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کی میزبانی کریں گے ، تاہم دونوں رہنماؤں کے درمیان ابھی ملاقات کا وقت طے نہیں کیا گیا کیونکہ بائیڈن ابھی کوویڈ۔19 سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔

نیتن یاہو بدھ کو کانگریس سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اور نائب صدر کاملا ہیرس سے بھی ان کی ملاقات متوقع ہے جو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کی خواہش مند ہیں۔

بار ایلان یونیورسٹی میں امریکہ اسرائیل تعلقات کے ایک ماہر ایتان گلبوا کہتے ہیں ہیں کہ نیتن یاہو کے لیے اس سفر میں کچھ بارودی سرنگیں اور نقصانات بھی ہیں۔ تاہم انہیں سیاسی جادوگر سمجھا جاتا ہے اور یقیناً انہیں معلوم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

اپنے اس دورے میں نیتن یاہو چوتھی بار امریکی کانگریس سے خطاب کریں گے۔ یہ تعداد کسی بھی عالمی رہنما کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس سے قبل انہوں نے کانگریس میں آخری تقریر 2015 میں کی تھی۔ متوقع تقریر میں ان کی حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے شراکت دار نتین یاہو سے حماس کے خاتمے کے عزم کا اعادہ سننا چاہیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل حماس جنگ بندی کی تجویز اور جنگ کے بعد کی حکمت عملی پر پیش رفت دیکھنا چاہتی ہے۔ اس مجوزہ معاہدے کو امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔

اسرائیل حماس جنگ میں اگرچہ امریکہ واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے لیکن اسرائیلی فوج کے طرز عمل اور فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے بارے میں امریکہ کے خدشات بڑھ رہے ہیں جس پر وہ اسرائیل کو متنبہ بھی کر چکا ہے۔ اگر امریکہ نئے صدر کے لیے کسی ڈیموکریٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ خدشات برقرار رہنے کا امکان ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ نیتن یاہو، اس دورے میں ٹرمپ سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔ا گر ان کی ملاقات ہوتی ہے تو ان پر ایک بار پھر فریق بننے کا الزام لگ سکتا ہے اور اگر وہ نہیں ملتے تو سابق صدر اس چیز کو محسوس کر سکتے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں عرب اسرائیل تعلقات کے پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ماکووسکی کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اسرائیلی عوام کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ امریکہ میں ان کا بہت زیادہ خیرمقدم کیا جاتا ہے اور امریکی عوام ان کے ساتھ ہیں۔

نتین یاہو ایک ایسے موقع پر واشنگٹن کے دورے پر آ رہے ہیں جب انہیں اپنے ملک میں ایک طرف حماس کے خلاف جنگ اور دوسری طرف اپنی حکومت کی گرتی ہوئی حمایت کا سامنا ہے۔ اسرائیل کے بہت سے لوگ 7 اکتوبر کا حملہ روکنے میں ناکامی کا انہیں ذمہ دار سمجھتے ہیں اور وہ غزہ میں جنگ سے نمٹنے کے ان کے طریقوں سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔ حالیہ عرصے میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو چکے ہیں اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

اسرائیل کے 500 مصنفین، اسکالرز اور عوامی شخصیات نے کانگریس کو لکھے گئے اپنے مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو دعوت دینے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو اپنی گمراہ کن پالیسیاں آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے۔

خط میں لکھا ہے کہ نیتن یاہو کا واحد مفاد اپنی طاقت بچانے میں ہے۔ کیا امریکی کانگریس ایک ایسے وقت میں اپنے فائدے کے لیے جوڑ توڑ کرنے والی قیادت کی حمایت کرنا چاہے گی۔

اسرائیلی میڈیا نے بتایا ہے کہ اس سفر میں بازیاب کرائی گئی نوا ارگمانی اور ان کے والد بھی شریک ہیں۔ لیکن بہت سے دوسرے خاندان، جن کے یرغمال بنائے گئے پیارے ابھی آزاد نہیں ہوئے، اس سفر کو توہین آمیز سمجھتے ہیں۔

ایلت لیوی شیچر کی بیٹی ناما، 7 اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے افراد میں شامل تھی۔ انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوروں کا وقت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو۔ پہلے آپ یرغمالوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کریں۔ اس کے بعد آپ سفر پر جا سکتے ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG