|
اسرائیل مسلسل ایران کے حملے کا جواب دینے کا عزم دہرا رہا ہے۔ ایسے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد ایران اور اسرائیل کے مدِبقابل آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے اپنے لائحہ عمل کا اب تک باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا ہے۔ مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق اسرائیل کی جنگی کابینہ نے گزشتہ دو روز کے دوران سوچ بچار کی ہے اور بدھ کو ایک مرتبہ پھر کابینہ ارکان مل بیٹھیں گے۔
دو امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک امریکہ کو مطلع نہیں کیا کہ وہ اگلا قدم کیا اٹھائے گا۔
ان حکام نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو نام نہ بتانے کی شرط پر سفارتی گفتگو کے بارے میں بتایا کہ، اسرائیل نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اگلا قدم اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھائے گا کہ اس سے خطے میں تنازع بڑھنے نہ پائے۔
اے پی کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی اقدام محدود پیمانے پر ہوگا، جیسے خطے بھر میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر حملے یا ایران پر سائبر حملہ وغیرہ۔
دوسری جانب امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
مبصرین کے مطابق اسرائیل کے ایران پر براہِ راست حملے کے نتائج ہوں گے اور خطے میں بین الممالک جنگ کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیل کے یکم اپریل کو شام میں سفارت خانے پر حملے کے جواب میں ہفتے کو اسرائیل کی سرزمین پر میزائل اور ڈرون سے حملہ کیا تھا۔ تاہم اسرائیل نے اب تک دمشق میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ تردید۔
تہران نے اسرائیل کے کسی بھی ممکنہ حملے کے بدلے میں سخت ردِ عمل دینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اسرائیل کو ایسے موقع پر ایران کے چیلنج کا سامنا ہے جب وہ غزہ میں حماس کے خلاف آپریشن کر رہا ہے جب کہ لبنان سے اسے حزب اللہ کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔
تل ابیب کے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز میں سینئر ریسرچر یوئیل گزنسکی کا خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل اگر تنہا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو خطے میں تازہ حاصل کی گئی خیر سگالی سے محروم ہوسکتا ہے۔
ان کے مطابق، ’’اسرائیل اس (خیر سگالی سے) فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مزید حملے نہ کر کے وہ ساکھ قائم کر سکتا ہے۔ لیکن اس نے ایران پر حملہ کیا تو وہ بہت حد تک اپنی ساکھ کھو سکتا ہے۔‘‘
اسرائیل کے عسکری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ 99 فی صد ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو اس کا آئرن ڈوم نامی فضائی دفاعی نظام روکنے میں کامیاب رہا۔ جب کہ ان میں سے چند ہی اس کی فضا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔
حکام کے دعوے کے مطابق ایرانی ہتھیاروں سے بہت معمولی مالی نقصان ہوا اور ایک سات سالہ بچی زخمی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد بین الاقوامی ممالک کے ایک اتحاد نے اسرائیل کے کامیاب دفاع میں مدد فراہم کی تھی۔
اسرائیل کا دفاع کرنے والے عالمی اتحاد کی سربراہی امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے کی جو خطے میں امریکی فوج کی نگران ہے۔ یہ اسرائیل اور خطے میں امریکہ کے حلیف عرب ممالک کے ساتھ کام کرتی ہے اور ایران کے خلاف ایک مضبوط دفاع تشکیل دیتی ہے۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن کی جانب سے کامیاب فضائی دفاع کا مظاہرہ اسرائیل کے لیے حمایت کا مظہر ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ خطے کے اہم ملک سعودی عرب کی جانب سے بھی اسرائیل کی مدد کی گئی ہو۔
اسرائیل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک نقشے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بہت سے ایرانی میزائل سعودی فضائی حدود سے گزرے ہیں۔
اسرائیل نے اپنے عرب شراکت داروں کے نام بتانے سے گریز کیا ہے۔ اسرائیلی فضائی حکام نے نام نہ بتانے کی شرط پر ایرانی حملے کے دفاع میں کیے گئے آپریشن سے متعلق اے پی کو بتایا کہ اسرائیلی طیاروں کو ملک کے مشرق میں پرواز کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت تھی تاکہ وہ ان میں سے کچھ میزائلوں کو تباہ کر سکیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں سینئر فیلو ڈینئیل بے مین کے مطابق عرب ممالک کی جانب سے مدد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایران کے خلاف حملے میں اس کی مدد کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیلسٹک میزائل کے علاوہ کسی بھی قسم کے فضائی یا میزائل حملے کے لیے اسے ان ممالک سے ان کی فضائی حدود سے ہتھیاروں کو گزارنے کے لیے اجازت لینی ہوگی۔
ان کے بقول، ’’سعودی عرب اور اردن کے معاملے میں، فضائی حدود تک رسائی کی اجازت اور روٹ کے سوالات اٹھیں گے۔
بے مین نے کہا کہ ایران کے نکتہ نظر سے یہ جارحانہ اقدام ہوگا۔ اگرچہ یہ ممالک ایران کو پسند نہیں کرتے، لیکن وہ اس اقدام کے دوران اسرائیل کی جانب داری لیتے ہوئے دکھنے کے بھی شوقین نہیں ہیں۔
بین الممالک جنگ کا خطرہ
کسی بھی ممکنہ اسرائیلی حملے کی صورت میں خطے میں کھلی جنگ چھڑنے کا بھی خطرہ ہے، ایسے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سوچ بچار لازمی ہے۔
ایرانی حدود میں براہِ راست حملے کی صورت میں اسرائیل پر بھی براہِ راست جارحانہ حملہ یقینی ہے۔ ایسے میں حزب اللہ کی جانب سے بھی حملے بڑھ سکتے ہیں۔
ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ کے پاس فلسطینی عسکری تنظیم حماس سے زیادہ طاقتور اسلحہ موجود ہے۔ لیکن اس نے اب تک کھلی جنگ کے آغاز سے گریز کیا ہے۔
حزب اللہ کے ساتھ جاری کشمکش کی وجہ سے شمالی اسرائیل سے اب تک 60 ہزار شہری اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں۔ تنازع کے بڑھنے سے ان افراد کا گھروں کو واپس آنا مشکل ہوجائے گا۔
براہ راست حملے کی وجہ سے اسرائیل کی فوج پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا اور غزہ سے اس کی توجہ ہٹ جائے گی جب کہ پہلے ہی جنگ سے کمزور ہوتی اس کی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔
اسرائیل ڈیماکریسی انسٹی ٹیوٹ میں پولنگ کے عمل کے ماہر تمار ہرمان نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اسرائیلی خطے کے حلیفوں، اور امریکہ کی حمایت سے کیے گئے عسکری حملے کی حمایت کرتے ہیں۔
ہرمان کا کہنا ہے کہ، ’’اگر یہ اقدام مشورے اور حلیفوں کی حمایت سے نہ کیا گیا، تو اس کی حمایت کم ہوگی۔‘‘
اسرائیلی عسکری طاقت
اسرائیل کی فوج خطے کے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے پاس اعلی ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار، ایف 35 طیارے بھی ہیں جن سے بڑی تعداد میں ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں پر براہِ راست حملہ کر سکتا ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئر فیلو فیبئین ہنز کے مطابق اسرائیل کے مقابلے میں ایران کی فضائیہ اس قدر طاقتور نہیں ہے۔
ان کے بقول ایرانی فضائیہ میں 80 اور 90 کی دہائی کے طیاروں کے علاوہ 1979 تک ایران پر حکومت کرنے والے شاہ محمد رضا پہلوی کے زمانے کے طیارے بھی شامل ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ہی ایک اور سینئر ریسرچر راز زمٹ کا کہنا تھا کہ، ’’میں نہیں سمجھتا کہ اسرائیل ایران میں بہت سے اہداف پر مکمل آپریشن شروع کرے گا۔ ایسا عمل ایران میں ایک یا دو اہداف پر حملہ ہو سکتا ہے۔‘‘
اس خبر کا مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔
فورم