ایرانی حملے کے حوالے سے بہت سے سوالات پوچھے جارہے ہیں جن میں سے کچھ محکمہ خارجہ کی ہفتے وار بریفنگ میں پیر کو بھی سامنے آئے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو ایران کے حملے کے بارے میں قبل از وقت علم نہیں تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے عہدہ داروں کا اس سے پہلے بھی یہی موقف سامنے آچکا ہے۔
میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ، ایران کے حملوں کے بارے میں پہلے سے نہیں جانتا تھا۔
اس سے قبل رائٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ترکیہ، اردن اور عراق کے حکام نے اتوارکو کہا تھاکہ ایران نے ہفتے کے روز اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے سے چند دن پہلےایک وسیع نوٹس دیا تھا تاکہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور تنازعےمیں تیزی سے اضافے کو روکا جا سکے، لیکن ایک امریکی اہلکار نے اس کی تردید کی تھی۔
ایران کی جانب سے جوابی حملے میں داغے گئے سینکڑوں ڈرونز اور میزائلوں میں سے زیادہ تر اسرائیلی علاقے تک پہنچنے سے پہلے ہی مار گرائے گئےتھے۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے حملے سے قبل واشنگٹن اور تہران دونوں سے بات کی تھی، اس نے مزید کہا کہ اس نے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ردعمل متناسب ہو ثالث کے طور پر پیغامات پہنچائے تھے۔
ترکیہ کے ایک سفارتی ذریعے نے کہا، "ایران نے کہا تھاکہ یہ دمشق میں اس کے سفارت خانے پر اسرائیل کےحملے کا ردعمل ہوگا۔ اور یہ کہ وہ اس سے آگے نہیں جائے گا۔ ہم امکانات سے آگاہ تھے۔"
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے اتوار کے روز کہا کہ ایران نے پڑوسی ممالک اور اسرائیل کے اتحادی امریکہ کو اس بارے میں 72 گھنٹے کا نوٹس دیا ہے کہ وہ حملہ شروع کر دے گا، ایک ایسا اقدام جس سے وہ بڑی حد تک حملے کو روک سکیں گے۔
تاہم، امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے امیرعبداللہیان کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نے سوئس ثالثوں کے ذریعے ایران سے رابطہ کیا تھا لیکن اسے(ایران کی جانب سے) 72 گھنٹے کا نوٹس نہیں ملا۔ "
امریکی اہلکار نے کہا "یہ قطعی طور پر درست نہیں ہے،" انہوں نے کوئی اطلاع نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کچھ کہاکہ یہ،یہ ٹارگٹ ہوں گے، لہٰذا انہیں خالی کردیں۔"
بائیڈن انتظامیہ کے اہل کار نے، جن کا نام رائٹرز نے نہیں بتایا، مزید کہا کہ حملے شروع ہونے کے بعد ہی تہران نے امریکہ کو ایک پیغام بھیجاتھا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ایران حملے کی ناکامی پر شرمندگی چھپانے کے لیے نوٹس دینے کی بات کر رہاہے۔
بیرحال ڈرونز، کروز میزائلوں اور بیلسٹک میزائلوں کے حملے سے خوفناک جانی نقصان کا خطرہ تھا اور بڑے پیمانے پر اسرائیلی اور امریکی جوابی کارروائی شروع ہو سکتی تھی جو علاقائی انتشار کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔
میتھیو ملر نےبریفنگ میں کہا" ہم اس پر زور دیتے رہیں گے کہ بین الاقوامی برادری اس طرح کی لاپرواہی اور بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی مذمت میں ایک متحد محاذ کے طور پر کام کرے۔ اس طرح کے رویے سے خطے کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے تمام لوگوں کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ ہے۔"
میتھیو ملر نے اسرائیل پر ایران کے حملے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہمارے دفاعی نظام نے ان کے ڈرونز اورمزائیلوں کو کامیابی سے مار گرایا جس میں بڑا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔ میتھیو ملر نے کہا۔ "یہ ہماری مشترکہ کامیابی ہے اور اس میں اپنا کردار ادا کرنے پر امریکہ کوفخر ہے۔”
ایران کے ہفتے کو کئے جانے والے حملے کے حوالے سے ملر نے کہا کہ اسرائیل کے دفاع کے لیے ایک مربوط ردعمل کو عملی شکل دینے کے لیے ہم اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر پہلے سے کام کر رہے تھے، " ایسا نہیں تھاکہ ہم اسرائیل کے ساتھ مل کر ان کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔”
میتھیو ملر نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کے دفاع میں امریکہ کی شراکت اس عزم کی کامیابی کا واضح پیغام ہے۔
غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی
انہوں نے کہ ہم غزہ میں کم از کم چھ ہفتوں کی جنگ بندی کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔ جس سے باقی ماندہ تمام یرغمالوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی اور مزید پائیدار امن کی راہ ہموار ہو گی۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملرکے الفاظ تھے،“ہم اس کام کو آگے بڑھانے اور اسرائیل، فلسطینی عوام اور وسیع تر خطے کے لیے دیرپا امن اور سلامتی فراہم کرنے کے بارے میں پرعزم ہیں۔”
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔
فورم