اسرائیل اور حماس کے درمیان 72 گھنٹے کی جنگ بندی منگل کو شروع ہوئی جب کہ اسرائیل نے غزہ سے اپنی زمینی فوج کا انخلا شروع کر دیا۔
تین روزہ جنگ بندی کا معاہدہ مصر میں فریقین کے بلواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا۔
آٹھ جولائی سے شروع ہونے والی لڑائی میں تقریباً 1900 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچوں سمیت اکثریت عام شہریوں کی تھی جب کہ اسرائیل کے فوجیوں سمیت 67 لوگ مارے گئے۔
قبل ازیں منگل ہی کو اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر کا کہنا تھا کہ جنگ بندی شروع ہوتے ہی زمینی افواج غزہ سے واپس بلا لی جائیں گی۔
ان کے بقول یہ انخلا حماس کی سرحد کے آر پار تمام 32 سرنگیں تباہ کرنے کا مشن مکمل ہونے کے بعد کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ لڑائی میں 900 فلسطینی عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
ادھر خبر رساں ادارت ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس نے جنگ بندی شروع ہونے سے کچھ دیر قبل راکٹ داغے اور اس کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کے "قتل عام" کا بدلہ ہے۔
راکٹ داغے جانے کی وجہ سے اسرائیلی علاقے میں سائرن سنے گئے لیکن کسی بھی طرح کے جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
ترجمان پیٹر لرنر کا کہنا تھا کہ "فوجی اہلکاروں اور ٹینکوں کو غزہ کی پٹی کے باہر دفاعی پوزیشن پر دوبارہ تعینات کیا جائے گا۔"
امریکی محکمہ خارجہ نے جنگ بندی کے معاہدے کو سراہتے ہوئے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ "اس کی مکمل پاسداری" کریں۔
ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن فریقین کے درمیان "طویل المدت پائیدار اور دیرپا حل" کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
جنگ بندی کے معاہدے کے باجود فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی کو ختم کیا جائے اور ساتھ ہی اسرائیل جون میں کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیے افراد سمیت دیگر قیدیوں کو رہا کرے۔
جون میں تین اسرائیلی لڑکوں کے اغواء کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے میں چھاپہ مار کارروائیاں کی تھیں اور اس دوران متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
اسرائیل ان مطالبات کو ماننے سے بظاہر انکاری رہا ہے۔