۔ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق بات چیت کے لیے مذاکرات کار مصر پہنچ چکے ہیں۔ - امریکی اینجسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور قطری وفدبھی مذاکرات میں شرکت کے لیے قاہرہ پہنچ چکے ہیں۔ - اسرائیل اور حماس کے وفود کی شرکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ |
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے مذاکرات کار مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچ رہے ہیں۔
مصر کی 'القاہرہ نیوز' کے مطابق امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر بل برنس بھی ہفتے کو مذاکرات میں شرکت کے لیے قاہرہ پہنچے جب کہ قطری اعلی حکام اور اسرائیلی وفد بھی ممکنہ طور پر مذاکرات میں حصہ لیں گے۔
حماس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ وہ غزہ میں اپنے نائب چیف خلیل الحیا کو بات چیت کے لیے بھیج رہا ہے جب کہ حماس کی طرف سے اپنے بنیادی مطالبات کو بھی دہرایا گیا ہے جس میں غزہ میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کے مطالبات شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور امیرِ قطر کے شیخ تمیم بن حماد الثانی کو یرغمالوں کی صورتِ حال سے متعلق خطوط لکھے ہیں۔
امریکی صدر نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حماس سے وعدوں اور معاہدے پر عمل کرائیں۔
جو بائیڈن نے اسرائیل وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے مذاکرات کاروں کو با اختیار بنائیں تا کہ جلد از جلد ایک معاہدہ طے پا سکے جس کے تحت غزہ میں انسانی امداد پہنچ سکے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو اکیسویں صدی کے سب سے ہلاکت خیز تنازعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
'غزہ کی جنگ انسانیت کے ساتھ غداری ہے'
اقوامِ متحدہ کے انسانی معاملات، ایمر جنسی اور ریلیف کے انڈر سیکریٹری جنرل مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ چھ ماہ گزر جانے کے بعد غزہ کی جنگ انسانیت کے ساتھ غداری ہے۔
ہفتے کو جاری کردہ بیان میں گرفتھس نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درد اور تکلیف کا اعتراف کیا جس کا سلسلہ پچھلے سال سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں کے بعد شروع ہوا جس میں بارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنایا گیا۔
ان کے بقول غزہ کے لوگوں کے لیے پچھلے چھ ماہ کی جنگ اموات، تباہی اور ایک شرمناک انسانی قحط لے کر آئی ہے اور لوگ اب تک حملوں سے خوف زدہ ہیں۔
گرفتھس کا جنگ بندی کی درخواست کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر ایک سیکنڈ قیمتی ہے اور جنگ میں ہر لمحہ انسانی جانیں جا رہی ہیں اور مستقبل میں بھی اس کے اثرات دیکھے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ میں شدت اور اضافہ غیر انسانی بات ہو گی
تینتیس ہزار سے زائد ہلاکتیں
اقوامِ متحدہ، غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 33 ہزار 137 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 13 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
غزہ کا محکمۂ صحت عام شہریوں اور جنگجوؤں کی ہلاکت میں فرق نہیں کرتا تاہم اس کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں لگ بھگ دو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیل کا جنوبی غزہ میں فورسز کم کرنےکا اعلان
اسرائیل نے جنوبی غزہ سے افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔
اتوار کو اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اس کی ایک بریگیڈ فوج وہاں موجود ہوگی۔
اسرائیل نے بین الاقوامی دباؤ کے سبب رواں برس کے آغاز میں غزہ کی پٹی میں افواج کم کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس عمل کے دوران ریزرو فوجیوں کو واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ یہ صورت حال اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے رفح میں ممکنہ زمینی کارروائی کے اعلان پر اثر انداز ہو گی یا نہیں۔ کیوں کہ نیتن یاہو مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ حماس کے خاتمے کے لیے رفح میں زمینی کارروائی ضروری ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جنوبی غزہ کے مرکزی شہر خان یونس کے مکینوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فورسز کے اہلکار شہر کے مرکز سے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج اب مشرقی علاقوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔
یرغمالوں کی رہائی تک جنگ بندی سے انکار
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی تک جنگ بندی قبول نہیں کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے اتوار کو جنگ کے چھ ماہ مکمل ہونے کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیل غزہ کی انتہا پسند تنظیم کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گا۔
دوسری جانب اسرائیلی فورسز نے کہا ہے کہ اس کو ایک یرغمال کی لاش ملی ہے۔
ہفتے کو ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کو یرغمال کی لاش خان یونس سے ملی ہے جس کا نام ایلاد ہے اور وہ اسرائیل میں کسان تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی عسکری تنظیم اسلامی جہاد نےایلاد کو جنوری میں قتل کرکے دفن کر دیا تھا۔
اسلامی جہاد یا غزہ کی حکمراں تنظیم حماس نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور ’اے پی‘ سے حاصل کردہ معلومات شامل کی گئی ہیں۔