|
ویب ڈیسک _ غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی فوج نے منگل کی صبح غزہ میں انسانی بنیادوں پر محفوظ قرار دیے گئے علاقے پر میزائل حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں لگ بھگ 40 فلسطینی ہلاک اور 60 زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ’المواصی‘ نامی علاقے کو نشانہ بنایا ہے جو خان یونس اور رفح کے درمیان واقع ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے اسی علاقے میں خیمے لگا کر پناہ لی تھی۔
اسرائیلی فورسز سمندر کے بالکل قریب واقع اس چھوٹے سے علاقے کو انسانی بنیادوں پر محفوظ علاقہ قرار دے چکی تھی۔
سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز اور تصاویر زیرِ گردش ہیں جن میں المواصی میں میزائل حملے کے بعد زمین میں بڑے گڑھے نظر آ رہے ہیں۔
ان گڑھوں کے ارد گرد تباہ ہونے والے خیمے، ملبہ اور دیگر تباہ شدہ سامان بھی موجود ہے۔
امدادی رضا کاروں کو گڑھے کے ارد گرد سے مشینری اور ہاتھوں سے سمندری ریت ہٹاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیوز میں نظر آ رہا ہے کہ رات کے اندھیرے میں کئی افراد اپنے ہاتھوں سے ریت اور ملبہ ہٹا رہے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر اس کے نیچے دبے افراد کو نکالا جا سکے۔
اس دوران کئی افراد اپنے ہاتھوں میں موبائل فون کی ٹارچ جلائے کھڑے ہیں تاکہ متاثرہ مقام پر کسی حد تک روشنی ہو سکے۔
ایک مقام پر میزائل حملے سے ہونے والے گڑھے کی گہرائی لگ بھگ 30 فٹ نظر آ رہی ہے۔
اسرائیل کی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس مقام پر غزہ کی عسکری تنظیم حماس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم تھا۔ اسرائیل فوج کے بقول حملے کے وقت وہاں حماس کا ایک انتہائی اہم دہشت گرد بھی موجود تھا۔
اسرائیل کی فوج نے اس حملے اور اس میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے حماس کے اہم کمانڈر سے متعلق مزید کسی قسم کی تفصیلات یا شواہد جاری نہیں کیے۔
فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت کام کرنے والے سرکاری خبر رساں ادارے ’وفا نیوز‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ حملے میں کئی درجن افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
وفا نیوز کے مطابق المواصی میں مختلف مقامات پر پانچ میزائل داغے گئے ہیں ان میزائلوں سے زمین پر بڑے گڑھے بن گئے ہیں۔
حملوں کے حوالے سے اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ اس نے حملوں میں درست مقدار میں بارود کا استعمال کیا ہے جب کہ اس علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ درست نشانے کے لیے دیگر ذرائع کا بھی استعمال کیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اس علاقے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے تھے۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے طبی حکام کا کہنا ہے کہ المواصی میں ہونے والے میزائل حملوں میں 40 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ جب کہ کئی خاندانوں کے تمام افراد کی اموات کی اطلاعات ہیں۔
طبی حکام کے مطابق میزائل حملوں میں 60 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حکام کے بقول ہلاک و زخمی ہونے والے افراد کی یہ وہ تعداد ہے جنہیں اسپتالوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ریت اور ملبے کے نیچے مزید افراد دبے ہو سکتے ہیں۔
’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق جنگ کے آغاز سے قبل غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل کے اس دعوے کو جھوٹ قرار دیا ہے کہ سیف زون میں اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر تھا۔
اسرائیل کے دعوے پر حماس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اس کا مقصد اپنے بد ترین جرائم کو چھپانا ہے۔
حماس کے مطابق وہ پہلے بھی کئی بار تردید کر چکی ہے کہ اس کے ارکان عام شہریوں کے لیے مخصوص مقامات کو عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
کونسل آف اسلامک ریلیشنز نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے سیف زون میں میزائل حملے اور اس میں ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کے غزہ کے انسانی بنیادوں پر محفوظ قرار دیے گئے علاقے پر میزائل حملے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب جنگ بارہویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔
غزہ میں اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ کا اعلان گزشتہ برس اکتوبر میں اس وقت کیا تھا جب سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔
زمین، فضا اور بحری راستے سے کیے گئے اس غیر متوقع حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
فریقین کے درمیان گزشتہ برس نومبر میں عارضی جنگ بندی کے دوران 100 سے زائد یرغمالوں کو حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے بدلے رہا کر دیا تھا۔ لگ بھگ سو یرغمالی اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان میں بھی ایک تہائی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری اور زمینی کارروائی میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ لگ بھگ 95 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں بھی نشانہ بننے والے زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت نے گیارہ ماہ قبل کارروائی کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ حماس کے خاتمے اور تمام یرغمالوں کی بازیابی تک کارروائی جاری رہے گی۔
اسرائیلی فوج کو اس کارروائی میں اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ گزشتہ ہفتے غزہ میں چھ یرغمالوں کی لاشیں ملی تھیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان یرغمالوں کو اہلکاروں کے ان تک پہنچے سے کچھ وقت قبل انتہائی قریب سے متعدد گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔
یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیل میں قائم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ احتجاج میں حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ یرغمالوں کی زندہ واپسی کے لیے حماس کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ کرے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی کا کہنا ہے کہ پیر کو غزہ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے امداد لے جانے والے قافلے کو اسرائیلی فوج نے کئی گھنٹوں تک روکا۔
روکے گئے قافلے کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی کے سربراہ فلپ لازارینی کا کہنا تھا کہ اس میں شمالی غزہ اور غزہ سٹی میں انسدادِ پولیو مہم میں مصروف رضا کار تھے۔
ان کے بقول ’’قافلے کو وادیٴ غزہ کی چوکی کے بعد اسلحے کے زور پر روکا گیا اور قافلے میں موجود رضا کاروں کو گرفتار کرنے کی بھی دھمکیاں دی گئیں۔‘‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ان کا کہنا تھا کہ بلڈوزروں سے اقوامِ متحدہ کی آرمرڈ گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رضاکاروں کا قافلہ واپس اقوامِ متحدہ کے بیس پر واپس آ گیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں انسدادِ پولیو مہم میں بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے یا نہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔