اسرائیل میں ایک سال سے بھی کم عرصے میں تیسری بار عام انتخابات کے لیے آج ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اس سے پہلے ہونے والے دونوں انتخابات میں نیتن یاہو اور ان کے حریف بینی گینٹز اتحادیوں کی حمایت کے باوجود اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ رائے عامہ کے جائزے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بار بھی کوئی اندازہ لگانا دشوار ہے۔
وزیراعظم نیتن یاہو کو ایک اور مشکل یہ درپیش ہے کہ دو ہفتے بعد ان کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔ عدالت نے انھیں 17 مارچ کو طلب کیا ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور ان پر قائم مقدمات جھوٹے ہیں۔
سیاسی حریفوں نے نیتن یاہو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اگر وہ الیکشن جیت گئے تو مجرم ٹھہرائے جانے کے باوجود اپیلوں کا فیصلہ ہونے تک کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
وزیراعظم نیتن یاہو نے پیر کو ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد شہریوں پر زور دیا کہ وہ حق رائے دہی استعمال کریں۔ انھوں نے کہا کہ عوام کو ایسی تکلیف دہ انتخابی مہم کی ضرورت نہیں جیسی حال میں ختم ہوئی ہے۔ عوام کو نا ختم ہونے والے عدم استحکام کی بجائے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو سب کے لیے کام کر سکے۔
ان کے حریف بینی گیٹز اسرائیلی افواج کے سابق جرنیل ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ان کی بلو اینڈ وائٹ پارٹی نے نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی سے ایک نشست زیادہ حاصل کی تھی لیکن دونوں جماعتیں 120 ارکان کی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
اسرائیل میں حلقوں کی بجائے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہر پارٹی کو اسے ملنے والے ووٹوں کی شرح سے اسمبلی کی نشستیں دی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر مخلوط حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔