اسرائیل میں منگل کو ہونے والے عام انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی جاری ہے لیکن مقامی ذرائع ابلاغ اور سیاسی مبصرین ابتدائی نتائج کی بنیاد پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایک بار پھر کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو اسرائیل کو ایک بار پھر اسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس سے قبل اپریل میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیدا ہوئی تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی قدامت پسند جماعت 'لیکوڈ' پارٹی اور ان کے حریف سابق آرمی چیف بینی گینز کی 'بلیو اینڈ وائٹ' پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
مقامی ٹی وی چینلز کے مطابق اب تک کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق دونوں بڑی جماعتوں نے 120 رکنی پارلیمان میں 32، 32 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ البتہ دونوں میں سے کوئی جماعت بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سابق وزیرِ دفاع اویگدور لیبرمین کی جماعت 'یسریل بیتینو' پارٹی نے خاص اہمیت اختیار کرلی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل اویگدور کی جماعت کو نو نشستوں پر کامیابی کی توقع ہے۔
اویگدور لیبرمین اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر قومی حکومت تشکیل دینی چاہیے۔ البتہ نیتن یاہو اور ان کے حریف بینی گینز قومی حکومت کے قیام کی تجویز مسترد کرچکے ہیں۔
منگل کو ہونے والی پولنگ کے دوران ووٹنگ ٹرن آؤٹ 69 فیصد رہا اور بدھ کی صبح تک صرف 35 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی تھی۔
ایک سو بیس نشستوں پر مشتمل ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے کسی بھی جماعت کو 61 نشستیں درکار ہیں۔ البتہ ابتدائی نتائج میں کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔
اسرائیل میں چھ ماہ کے دوران دوسری مرتبہ عام انتخابات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے نو اپریل کو ہونے والے انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت نہ ملنے اور مخلوط حکومت کی تشکیل میں ناکامی پر دوبارہ انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
اپریل میں ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور بینی گینتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی نے 35، 35 نشستیں حاصل کی تھیں۔
منگل کو رات گئے ابتدائی نتائج کے اعلان کے بعد تل ابیب میں لیکوڈ پارٹی کے مرکزی دفتر میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے نہ کامیابی کا اعلان کیا اور نہ شکست تسلیم کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ مضبوط صیہونی حکومت کے قیام کے خواہش مند ہیں جو قوم کے بیشتر افراد کے نظریات کی عکاس ہوگی۔
انتخابات سے ایک ہفتے قبل نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی جماعت نے الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کی تو وہ مقبوضہ وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرلیں گے۔
نیتن یاہو کے حریف بینی گینز نے انتخابات کے ابتدائی نتائج آنے کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا مشن مکمل کرچکے ہیں اور عوام سے مخلوط حکومت بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔
انہوں نے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے ساتھ کام کرنے کے امکان کو بھی مسترد کیا ہے۔