منگل کی شب قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے کے اعلان کے ساتھ اسرائیل میں اورغزہ کی پٹی میں جس پر حماس کا کنٹرول ہے، خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات بار بار ملتوی ہوتے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اعلا ن پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی۔
اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ فار کاؤنٹر ٹیررازم کے سربراہ بواز گانور کہتے ہیں کہ بالآخر یہ سمجھوتہ اس لیے طے پایا کیوں کہ موجود حالات میں یہ اسرائیل، حماس اور مصر تینوں کے مفاد میں ہے ۔ یہ سمجھوتہ مصر کی وساطت سے طے پایا ہے ۔’’تبادلے کے اس سمجھوتے پر اس لیے دستخط ہوئے کہ یہ وہ منفرد موقع تھا جس میں اس بحران کوباقی رکھنے کے بجائے اسے ختم کرنا تمام فریقوں کے مفاد میں تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سمجھوتے سے حماس کو بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت تسلیم کرانے کے مقصد میں مدد ملی ہے۔ حماس نے چار سال قبل غزہ کا کنٹرول حاصل کیا تھا اور وہ سفارتی سطح پر الگ تھلگ ہو کر رہ گئی ہے کیوں کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی حامی ہے۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے میں ایک عنصر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حماس فلسطینی لیڈر محمود عباس کی مقبولیت کا توڑ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جنھوں نے گذشتہ مہینے اقوامِ متحدہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی درخواست کی ہے ۔
یروشلم کی پیلسٹینیئن اکیڈمک سوسائٹی کے سربراہ مہدی عبد الہادی کہتے ہیں کہ حماس مصر کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مصر نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد پر سفر اور تجارت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
عبدالہادی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حماس اپنے ان لیڈروں کے لیے جو شام میں رہتے ہیں، کوئی نئی جگہ تلاش کر رہی ہو کیوں کہ سات مہینے پرانی عوامی تحریک کے خلاف پُر تشدد کارروائیوں پر عربوں کی طرف سے شام کی حکومت پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔’’حماس دمشق سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کر رہی ہے ۔ حماس کا اگلا ٹھکانہ مصر ہو سکتا ہے جہاں اس کی قیادت منتقل ہو سکتی ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتےہیں کہ یہ سمجھوتہ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے مفاد میں بھی ہے جن پر اسرائیلی سپاہی گیلاد شالت کو رہائی دلانے کے لیے دباؤ پڑتا رہا ہے ۔ حماس نے انہیں پانچ برس قبل، 19 سال کی عمر میں پکڑا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ شالت کی رہائی سے وزیرِ اعظم کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا، اور مسٹر عباس کو نقصان ہو گا جنھوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل اس کوشش کا سخت مخالف ہے۔
اسرائیل کو یہ پریشانی بھی ہے کہ مصر میں جو انتخاب ہونے والے ہیں ان کے نتیجے میں ایسی حکومت بر سرِ اقتدار آ سکتی ہے جو قیدیوں کے تبادلے کے سوال پر مصالحت کے لیے آمادہ نہ ہو۔اسرائیلی حکومت مصر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے ۔ اگست میں جب پانچ مصری سپاہی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کے گولیوں کا نشانہ بنے تھے، اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
سرحد کے واقعے کے بعد، ایک ہجوم نے قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اسٹاف کا انخلا کرنا پڑا ۔ منگل کے روز اسرائیلی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ سرحد پر گولیاں چلانے کے واقعے پر معذرت کرے گی اور متاثرین کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرے گی۔
عبد الہادی کہتے ہیں کہ مصری حکومت کو بھی اس کی سفارتکاری سے فائدہ ہو گا۔ اس پر عوامی تحریک کے لیڈروں کی طرف سے جنھوں نے اس سال کے شروع میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹا تھا، جمہوری اصلاحات کرنے کے لیے عوامی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ علاقے میں جو شورش برپا ہے، اس کی روشنی میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے یہ موقع غنیمت معلوم ہوا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ موقع گنوانے کا خطرہ مول نہیں لیا جانا چاہیئے تھا۔