فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو ماہرین بین الاقوامی تعلقات مصر کی عبوری فوجی حکومت کی جانب سے ایک اہم سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں ، اور اسرائیل نے بھی اس سمجھوتے تک پہنچنے میں مصر کے مرکزی کردار کا شکریہ ادا کیا ہے ۔
اسرائیل اور مصر کے تعلقات میں یہ گرمجوشی ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے مصر کی سرحدپر پانچ مصری سیکیورٹی گارڈزکی ہلاکت کے واقعے کے بعد قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا ۔
اسرائیل کومصر میں ابھرنے والے اسلام پسند عناصر سے خدشات بھی ہیں، جنہیں سابق مصری صدرحسنی مبارک کے دور میں دبا ؤ کا سامنا تھا کیونکہ ان کے پیش روصدر انور سادات کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہد ہ کرنےکی وجہ سے ہی ہلاک کیا گیا تھا ۔
جبکہ قاہرہ میں مصر کی عبوری فوجی حکومت کی سپریم کونسل بھی اسی حقیقت پسندی کا اظہار کررہی ہے ۔ ایک معاملہ جس پرمصر کی عبوری حکومت کام کر رہی ہے ، وہ مصر اور فلسطینی انتظامیہ کے تحت غزہ کی پٹی کے درمیان رسد کے لئے قائم کی گئی ایک غیر قانونی سرنگ کا ہے ، جو سابق مصری حکومت کے دور میں ایک کھلا راز تھی ۔
مصر کے ایک معاشی تجزیہ کار ہشام قاسم کہتے ہیں کہ اب مصر کی پالیسی زیادہ حقیقت پسندانہ ہے ،کیونکہ عبوری حکومت نے ان سرنگوں کو ختم کرنے کے لئے آلات بھی حاصل کر لئے ہیں اور ایک معقول اور باقاعدہ طریقے سے دوبارہ سرحد یں کھولنے کاکام شروع کر دیا ہے ۔
قاسم سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی جاری رہے گی ، چاہے مصر میں عبوری حکومت کےخاتمے میں کوئی بھی بر سر اقتدار آئے ۔ ان کا کہناہے کہ مصر کا اگلا صدر کوئی فوجی سربراہ نہیں ہوگا ۔ کمانڈر انچیف جو بھی ہوا ، فوج کے اندر سے ہوگا ، چاہے غیر سرکاری طور پر ہی سہی، لیکن فوج کو جنگ کی قیمت اور نتائج کا اندازہ ہے ۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق مصر کے عوام نئی جمہوری حکومت کے قیام کے ابتدائی عرصے میں اسرائیل سے تعلقات کی موجودہ نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے ۔
پروفیسر صدیق صادق قاہرہ کی امیرکن یونیورسٹی سے ،منسلک ہیں ۔ ان کے خیال میں قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتہ فلسطین اور اسرائیل کی مستقبل مزاجی کا نتیجہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلی کی لہر کے پیچھے اندرونی مسائل تھے ، مقصد تھا رعایا کو انسان کے درجے تک لانا ۔ کوئی بھی انسان رعایا جیسا برتاؤ نہیں چاہتا ۔ وہ بھی اپنی حکومتوں سے اپنے لئے ویسی ہی اہمیت چاہتے ہیں ، جیسی اسرائیل نے اپنے ایک فوجی کو دی ہے ۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہزار سے زائد قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے سے حماس کوفلسطینی سیاست میں اپنا کردار مضبوط کرنے کاموقعہ ملے گا ، جبکہ مصر اور ترکی کا کردار اہمیت اختیار کر سکتا ہے ۔ اگر حماس اور مصر کے تعلقات میں گرمجوشی آتی ہے تو واشنگٹن میں ماہرین کا خیال ہے کہ حماس اپنا ہیڈ کوارٹر شام کے دارلحکومت دمشق سے مصر منتقل کر سکتی ہے ، جہاں صدر بشر الاسد کی حکومت کو بھی جمہوری تبدیلیوں کے لئے عوامی تحریک کاسامنا ہے ۔امریکی اخبارات کے مطابق سارجنٹ گیلاڈ شالیٹ چھبیس سالوں میں وہ پہلا اسرائیلی فوجی ہے جو حماس کی قید سے زندہ واپس آیا ہے ۔