عام شہریوں کو خلاء تک لے جانے میں ایک اور یورپی ملک اٹلی نے بھی کامیابی حاصل کر لی ہے اور اطالوی ماہرین کی ایک ٹیم جس میں ایئر فورس کے دو افسران اور ایک انجنیئر شامل تھا، جمعرات کی صبح ایک خصوصی خلائی جہاز کے ذریعے اس بلندی تک پہنچ گئی جہاں پر زمین کی کشش ثقل ختم اور خلا کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔
عام طیارے صرف اتنی بلندی تک جا سکتے ہیں جہاں تک ہوا ان کا بوجھ برداشت کر سکے۔ کمرشل طیاروں کو زیادہ سے زیادہ 42 ہزار فٹ کی بلندی تک جانے کی اجازت ہے جب کہ فوجی جیٹ طیارے 51 ہزار فٹ کی بلندی پر بھی پرواز کر لیتے ہیں۔ انتہائی جدید فوجی جیٹ طیاروں کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ 60 ہزار فٹ کی بلندی پر بھی پرواز کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے خلائی مہمات میں کمرشل کمپنیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اسپیس ایکس اور بلیو اوریجن کمپنیاں عام شہریوں کو بھی خلا میں جھانکنے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں مگر ان کے ٹکٹ خریدنے کی استعداد صرف ارب پتی ہی رکھتے ہیں۔ یہ کمپنیاں خلا میں جانے کے لیے راکٹ استعمال کرتی ہیں، جب کہ اطالوی کمپنی ورجن گیلیکٹک ایک مختلف طریقہ سامنے لائی ہے۔
ورجن گیلیکٹک نے اپنی اس تازہ ترین مہم میں خصوصی طیارہ اور خصوصی خلائی جہاز استعمال کیا ہے۔ اس خصوصی طیارے میں یہ خوبی ہے کہ اس پر خصوصی خلائی جہاز کو نصب کرنے کا بندوبست موجود ہے۔ خلائی جہاز میں راکٹ انجن لگایا گیا ہے جو اسے اس بلندی تک لے جانے میں مدد کرتا ہے جہاں زمین کی کشش ثقل ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بلندی تقریباً 85 کلومیٹر ہے۔
بڑے سائز کے اس طیارے کو اڑان بھرنے کے لیے بڑے رن وے اور خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے صحرا میں واقع خلائی مرکز کو استعمال کیا گیا۔
جمعرات کی صبح جب یہ تجرباتی پرواز شروع ہوئی تو ورجن گیلیکٹک نے اپنی ویب سائٹ پر اس پرواز کو براہ راست دکھانے کے لیے انتظامات کیے تھے۔
خلائی جہاز میں سوار افراد کے ذمے مختلف امور سونپے گئے تھے۔ جن میں سے ایک کو خصوصی سوٹ پہنایا گیا تھا جس میں بائیو میٹرک ڈیٹا اور پرواز کے دوران جسم کے ردعمل کو جانچنے کے آلات نصب تھے۔
دوسرے ماہر کی ذمہ داری یہ تھی کہ جب خلائی جہاز اس بلندی پر پہنچ جائے جہاں زمین کی کشش ثقل صفر ہو جاتی ہے اور انسان بے وزنی کی کیفیت میں تیرنے لگتا ہے، تو وہ سینسرز کے ذریعے اس دوران دل، دماغ اور دوسرے اعضا کی کارکردگی کو ریکارڈ کرے۔
تیسرے ماہر کو انتہائی کمزور کششِ ثقل کے ماحول میں بعض مائعات اور ٹھوس مرکبات کے باہمی ملاپ پر تجربات کرنے تھے۔
خصوصی طیارہ اڑان بھرنے کے بعد جب لگ بھگ 45 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو خلائی جہاز اس سے الگ ہو گیا۔ اور پھر اس کے راکٹ انجن نے کام شروع کر دیا اور خلائی جہاز کو 85 کلو میٹر یا 2 لاکھ 79 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچانے کے بعد راکٹ انجن بند ہو گیااور خلائی جہاز نے تیرنا یا گلائیڈ کرنا شروع کر دیا۔
اس موقع پر خلائی جہاز میں سوار ماہرین نے اپنی سیٹ بیلٹس کھول دیں اور وہ بے وزنی کی کیفیت میں جہاز کے اندر تیرنے لگے۔اس موقع پر اٹلی کی فضائیہ کے ایک خلائی انجنیئر کرنل والٹر ولادی نے بے وزنی کی کیفیت میں اٹلی کا قومی پرچم لہرا یا اور ان کے ساتھیوں نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔
اس کے بعد واپسی کا سفر شر وع ہوا اور طیارہ گلائیڈ کرتے ہوئے خلائی اسٹیشن کے رن وے پر بحفاظت اتر گیا۔
اس سے قبل خلا کے تفریحی سفر پر جانے والوں کو ایک خصوصی کیپسول میں بٹھا کر راکٹ کے ذریعے خلا میں پہنچایا جاتا تھا جس کے بعد کیپسول کو سمندر میں اتار لیا جاتا تھا۔
یہ پہلا ایسا موقع ہے کہ راکٹ انجن سے چلنے والے ایک ایسے خلائی جہاز کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جو عام طیاروں کی طرح رن وے پر اتر سکتا ہے۔ اس ایجاد سے خلائی تفریح میں مزید آسانیاں پیدا ہوں گی۔
ہر آنے والے دن کے ساتھ ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو تفریح کی غرض سے خلا میں جانا چاہتے ہیں۔
ورجن گیلیکٹک کمپنی شوقیہ مسافروں کو مختصروقت کے لیے خلا کی سیر کرانے کے منصوبے پر برسوں سے کام کر رہی ہے۔ اسے 2021 میں وفاقی حکومت سے منظوری ملی تھی اور اس نے اپنی ٹیسٹ فلائٹ مئی میں کی تھی۔
ورجن گیلیکٹک خلائی سفر کے لیے اب تک تقریباً 800 ٹکٹیں فروخت کر چکا ہے۔ٹکٹ کی موجودہ قیمت ساڑھے چار لاکھ ڈالر ہے۔جن مہم جوؤں نے ابتدائی دنوں میں ٹکٹیں خریدی تھیں، وہ فائدے میں رہے ہیں کیونکہ انہیں ایک ٹکٹ کے دو لاکھ ڈالر ادا کرنے پڑے تھے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ شروع میں ٹکٹیں لینے والوں کو نشستیں الاٹ کر دی گئی ہیں۔