رسائی کے لنکس

افریقی نژاد نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر فرانس میں فسادات


فرانس میں قرآن جلائے جانے کے واقعے کے بعد احتجاجی مظاہرہ۔ فوٹو اے ایف پی۔ 29 جون 2023
فرانس میں قرآن جلائے جانے کے واقعے کے بعد احتجاجی مظاہرہ۔ فوٹو اے ایف پی۔ 29 جون 2023

فرانس کی حکومت نے جمعرات کو ایک 17 سالہ نوجوان کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کے نتیجے میں دو راتوں سے جاری شہری تشدد کو روکنے اور امن بحال کرنے کے لیے 40 ہزار پولیس افسران کی تعیناتی ا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق پولیس ان محلوں پر کریک ڈاؤن کرے گی جہاں عمارتوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔

ملک کے کئی علاقوں میں فسادات کا سبب بننے والا واقعہ پیرس کے مضافاتی علاقے نانٹئیر میں ٹریفک کے معاملے پر گاڑی روکنے کے دوران پیش آیا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پولیس نے فائرنگ کر کے گاڑی میں سوار نوجوان کو ہلاک کردیا۔ نوجوان افریقی نژاد ہے جسے نائیل کے نام سے شناخت کیا گیا ہے۔

ویڈیو پر ریکارڈ کیے گئے اس واقعے نے ملک کو چونکا دیا جس میں ایک پولیس افسر قریب سے نائیل پر گولی چلاتا ہے۔ واقعہ کی
ویڈیو عام ہونے سے ہاؤسنگ پراجیکٹس اور دیگر پسماندہ محلوں میں پولیس اور نوجوانوں کے درمیان دیرینہ تناؤ کو ہوا ملی۔

فسادات کے اچانک بھڑکنے کے بعد فرانسیسی وزراء نے متاثرہ علاقوں کا رخ کیا۔ انہوں نے لوگوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کی لیکن ساتھ ہی انتباہ بھی کیا کہ تشدد جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اے پی کے مطابق اب تک فسادات میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور تقریباً 100 عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک ہنگامی میٹنگ کے بعد وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمانین نے کہا کہ حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس افسران کی تعداد چار گنا سے زیادہ ہو جائے گی یعنی موجودہ 9,000 سے بڑھ کر 40,000 ہو جائے گی۔

پیرس کے مضافاتی علاقے نانٹئیر میں، ایک پولیس اہلکار کی گولی سے ہلاک ہونے والے نوعمرنائیل کی والدہ اپنے بیٹے کے لیے ایک یادگاری مارچ کے دوران ایک ٹرک پر موجود ہیں
پیرس کے مضافاتی علاقے نانٹئیر میں، ایک پولیس اہلکار کی گولی سے ہلاک ہونے والے نوعمرنائیل کی والدہ اپنے بیٹے کے لیے ایک یادگاری مارچ کے دوران ایک ٹرک پر موجود ہیں

صرف پیرس کے علاقے میں تعینات افسران کی تعداد دوگنا بڑھا کر 5000 کی جارہی ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ پولیس نے بدامنی کے دوران 180 گرفتاریاں کی ہیں۔

صدر ایمینوئل میکروں نے جمعرات کو بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پانے کی کوششوں کے سلسلے میں سینئر وزراء کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ اس بحرانی میٹنگ کے بعد وزیر اعظم ایلزبتھ بورن نے بعض سیاسی مخالفین کی طرف سے ہنگامی حالت کے اعلان کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔

اے پی نے رپورٹ دی ہے کہ گولی چلانے والے پولیس افسر سے ، دانستہ طور پر قتل کرنے کے الزام کی تفتیش کی جائے گی جب کہ ابتدائی تحقیقات کے نتیجے میں مقامی پراسیکیوٹرز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "ہتھیار کے قانونی استعمال کی شرائط پوری نہیں کی گئیں۔""

شوٹنگ کی دستیاب تفصیلات کے مطابق پراسیکیوٹر نے بتایا ہے کہ افسران نے نائیل کو ٹریفک میں روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ بہت کم عمر لگ رہا تھا اور بس کی لین میں پولینڈ کی لائسنس پلیٹ والی مرسیڈیز گاڑی چلا رہا تھا۔

نائیل نے رکنے کی بجائے ریڈ لائٹ کراس کی لیکن پھر ٹریفک میں پھنس گیا۔ اس واقع میں شامل دونوں افسران نے کہا کہ انہوں نے اسے فرار ہونے سے روکنے کے لیے اپنی بندوقیں تان لیں ۔

پراسیکیوٹر کے مطابق جس افسر نے نائیل پر گولی چلائی اس نے کہا کہ اسے خدشہ تھا کہ وہ اور اس کا ساتھی یا کوئی اور گاڑی سے ٹکرا سکتا تھا۔

فرانس کے صدر میکروں نے کہا ہے کہ تشدد کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میکروں نے یہ بھی کہا کہ یہ "یاد اور احترام" کا وقت ہے۔

ہلاک ہونے والے نوجوان نائیل کی والدہ نے جمعرات کو ایک خاموش مارچ کا مطالبہ کیا جس میں ایک بڑے ہجوم نے حصہ لیا۔ ہجوم اس چوک کی طرف گیا جہاں نائیل کو مارا گیا تھا۔

کچھ مارچ کرنے والوں نے اپنی ٹی شرٹس کے اگلے حصے پر "جسٹس فار نائیل" لکھا ہوا تھا۔ "پولیس مارتی ہے" ایک مارچ کرنے والے کے پلے کارڈ پر لکھا تھا۔

فرانس میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایسے واقعات سے نمٹنے پر زور دیا ہے جسے وہ پولیس کی بدسلوکی کے طور پر دیکھتے ہیں، خاص طور پر ایسے محلوں میں جہاں نائیل رہتا تھا اور جہاں بہت سے رہائشی غربت اور نسلی یا طبقاتی امتیاز میں زندگی گزارتے ہیں۔

فرانس میں پناہ گزینوں کے لئے عراقی پناہ گزین کا ڈھابہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:58 0:00

سرکاری اہل کاروں نے اس قتل کی مذمت کی اور پولیس افسر کے اقدام سے خود کو الگ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

فرانس کے مضافاتی علاقوں میں جاری تشدد کے مناظر سن 2005 کے واقعات کی بازگشت لگتے ہیں۔ اس سال 15 سالہ بونا ٹراورے اور 17 سالہ زید بینا کی ہلاکتوں کے نتیجے میں تین ہفتوں تک ملک گیر فسادات ہوئے۔ اس سال فرانس کی حکومت نے ملک گیر فسادات پر قابو پانے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

دریں اثنا، ایک الگ مقدمے کے حوالے سے مقامی پراسیکیوٹر نے بدھ کو بتایا کہ ایک پولیس افسر پر جس نے مغربی فرانس میں ایک 19 سالہ افریقی نژاد شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، ابتدائی طور پر دانستہ قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس واقعہ میں افسر نے ایک شخص کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب اس نے مبینہ طور پر ٹریفک ا سٹاپ سے بھاگنے کی کوشش کی۔ اس کیس میں تفتیش ابھی جاری ہے۔

(اس خبر میں شامل معلومات اے پی اور رؕاٹرز س خبر رساں اداروں سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG