لیبیا کے بحری محافظوں نے رواں ہفتے طرابلس کے ساحل کے قریب سمندر میں بہنے والی ایک خستہ حال ربر کی کشتی پر سوار ایک سو سے زائد تارکین وطن کو بچا لیا جن میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔
رواں سال اب تک تقریباً 9,500 تارکین وطن کشتیوں کی ذریعے بحیرہ روم کو پار کر کے اٹلی جا چکے ہیں اور 2017ء میں ان افراد کی تعداد میں ایک ریکارڈ اضافہ ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین نے لیبیا کی سکیورٹی فورسز اور بحری محافظوں کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے رواں ماہ طرابلس کی حکومت کو 21 کروڑ تیس لاکھ ڈالر کی معاونت فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم اٹلی لیبیا کے بحران کے مستقل سیاسی حل کے لیے نئی کوشش کا متمنی ہے اور وہ اس سلسلے میں تعاون کے لیے ماسکو کی طرف بھی دیکھ رہا ہے۔
لیبیا میں کئی متحارب دھڑے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور بین الااقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت طرابلس میں موجود ہے جبکہ متحارب فریق نے تبروک شہر کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے جو روس کے حمایت یافتہ جنرل خلیفہ ہفتار کا حامی ہے۔
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن کوبلر نے رواں ہفتے اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں فریقوں کے درمیاں صلح ہو سکتی ہے۔
کوبلر نے کہا کہ "پائیدار فیصلوں اور اقدامات سے ہم ایک سیاسی پیش رفت کو دیکھ سکتے ہیں جو لیبیا کو امن، خوشحالی اور استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔"
اٹلی یہ چاہتا ہے کہ روس حریف دھڑوں کو متحد کرنے میں مدد کریے۔ دوسری طرف برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے اسی ہفتے شراکت اقتدار کے لیے ایک سمجھوتے کی تجویز دی۔
جانسن نے کہا کہ "ہمیں اس کی بنیاد پر آگے بڑھ کر ملک (لیبیا) کے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک شراکت داری کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔یہ ایک اہم سوال ہے کہ کس طرح اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہفتار کو کیسے لیبیا کی حکومت کا حصہ بنایا جا سکے۔"
تاہم بعض یورپی ملکوں کو خدشہ ہے کہ ماسکو لیبیا میں فوجی اڈوں کی تلاش میں ہے ۔ مالٹا جس کے پاس اس وقت یورپی یونین کی کونسل کی صدارت ہے، نے متنبہ کیا ہے کہ روس کے ہتفار کی پشت پناہی کرنے سے (لیبیا میں )خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔
اگرچہ اٹلی روس سے تعاون کا متمنی ہے لیکن دوسری طرف یورپی یونین نے رواں ماہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند باغیوں کی پشت پناہی کرنے پر ماسکو کے خلاف تعیزات عائد رہیں گی۔
اٹلی کے وزیر خارجہ اینجلینو الفانو اپنے روسی ہم منصب سے آئندہ ہفتے جرمنی میں ملاقات کریں گے اور لیبیا کا معاملہ اس میں سرفہرست ہوگا۔