لاہور۔۔۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اتوار کو مینارِ پاکستان لاہور پر ایک جلسے کو، جِس میں بھاری تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، اگرچہ ’اسلام زندہ باد‘ کا نام دیا مگر اِس کو سیاسی جلسہ ہی باور کیا جارہا ہے۔لاہور میں اِس جلسے کی تیاریاں 23مارچ کو اِسی مقام پر ہونے والے ’پاکستان تحریک ِ انصاف‘ کے جلسلے کے بعد سے جاری تھیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قومی وحدت تعصب میں تبدیل ہو رہی ہے ،اور یہ کہ اُن کی جماعت نے یہ کانفرنس قوم کو وحدت کی دعوت دینے کے لیے منعقد کی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں اگرچہ بڑی تعداد میں مدرسوں کے طالب علم شریک تھے، تاہم مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اُ ن کے اِس اجتماع میں دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شریک ہیں، جِس کا اُنھوں نے تقریر کے دوران خیرمقدم بھی کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستانی عوام ہر سمت سے جبر کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کے بقول، ایسےمیں جب آپ ایک فیصلہ دینے جارہے ہیں، جمعیت علماٴ آپ کو اِس جبر سے نجات دینے کا پیغام لے کر آئی ہے۔ وقت ہے، اِس پیغام کو قبول کرلو اور آنے والی نسل کے مستقبل کو روشن کرنے کی نوید سنادو‘۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مینارِ پاکستان پر یہ اجتماع دراصل اس جماعت کا لاہور میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ ہے۔
نامور تجزیہ کار، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، جلسے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ پنجاب میں اُن کی تنظیم کی جو تنظیمی استعداد ہے وہ عمران خان کی تحریک انصاف سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’کیونکہ عمران خان کی تحریک کا اور مولانا صاحب کی پارٹی کا مقابلہ خیبرپختونخواہ میں ہونے والا ہے، اور مولانا سمجھتے ہیں کہ شاید پختونخواہ میں اُن کی سرکردہ پوزیشن ہے، اِس کی وجہ سے اُنھوں نے یہاں آکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ بنیادی طور پر یہ دکھانے کے لیے کہ یہ پارٹی مضبوط ہے، مستحکم ہے اور اگر ایک پارٹی اچھا جلسہ کرسکتی ہے تو وہ بھی اُسی قسم کا ایک مؤثر جلسہ کرسکتی ہے‘۔
ڈاکٹر رضوی کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران بڑے جلسے مینارِ پاکستان پر منعقد ہونے کی توقع ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قومی وحدت تعصب میں تبدیل ہو رہی ہے ،اور یہ کہ اُن کی جماعت نے یہ کانفرنس قوم کو وحدت کی دعوت دینے کے لیے منعقد کی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں اگرچہ بڑی تعداد میں مدرسوں کے طالب علم شریک تھے، تاہم مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اُ ن کے اِس اجتماع میں دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شریک ہیں، جِس کا اُنھوں نے تقریر کے دوران خیرمقدم بھی کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستانی عوام ہر سمت سے جبر کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کے بقول، ایسےمیں جب آپ ایک فیصلہ دینے جارہے ہیں، جمعیت علماٴ آپ کو اِس جبر سے نجات دینے کا پیغام لے کر آئی ہے۔ وقت ہے، اِس پیغام کو قبول کرلو اور آنے والی نسل کے مستقبل کو روشن کرنے کی نوید سنادو‘۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مینارِ پاکستان پر یہ اجتماع دراصل اس جماعت کا لاہور میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ ہے۔
نامور تجزیہ کار، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، جلسے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ پنجاب میں اُن کی تنظیم کی جو تنظیمی استعداد ہے وہ عمران خان کی تحریک انصاف سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’کیونکہ عمران خان کی تحریک کا اور مولانا صاحب کی پارٹی کا مقابلہ خیبرپختونخواہ میں ہونے والا ہے، اور مولانا سمجھتے ہیں کہ شاید پختونخواہ میں اُن کی سرکردہ پوزیشن ہے، اِس کی وجہ سے اُنھوں نے یہاں آکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ بنیادی طور پر یہ دکھانے کے لیے کہ یہ پارٹی مضبوط ہے، مستحکم ہے اور اگر ایک پارٹی اچھا جلسہ کرسکتی ہے تو وہ بھی اُسی قسم کا ایک مؤثر جلسہ کرسکتی ہے‘۔
ڈاکٹر رضوی کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران بڑے جلسے مینارِ پاکستان پر منعقد ہونے کی توقع ہے۔