مختاراں مائی نے کہا ہے کہ ’بھارت ہو یا پاکستان، تھانہ کلچر دراصل وڈیرہ کلچر ہے‘۔اُن کے بقول، ’بھارت کی ریاست بنگال میں لڑکی کے ساتھ پنچائت کے فیصلے کے تحت اجتماعی زیادتی کی خبر سن کر، اپنے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔ مجھے انصاف ملا نہ بھارتی لڑکی کو انصاف ملے گا۔ مجھے انصاف کی ڈھارس دینے والے چیف جسٹس کو خود کو جب انصاف ملا تو وہ مجھے بھول گئے‘۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان میں خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کی سرگرم کارکن مختارں مائی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کیا۔
مختاراں مائی کا تعلق ضلع مظفرگڑھ کے گاوٴں میروالا سے ہے، اور وہ بذات خود اپنے اس دعوی پر عدالتوں سے انصاف مانگتی رہی ہیں کہ وہ جون 2002ء میں مقامی پئچائت کے فیصلے کے تحت، دن دیہاڑے اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئیں۔ مختاراں مائی کے مقدمے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور توجہ ملی۔ ستمبر 2002ء میں دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے چھ ملزمان کو، جن میں چار مبینہ طور پر عصمت دری کرنے والوں میں شامل تھے، سزائے موت سنائی۔ تاہم، سال 2005 ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ شواہد ناکافی ہیں، 6 میں سے 5 ملزموں کو رہا کردیا، جبکہ چھٹے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے مختاراں مائی اور حکومت کی اپیل پر ملزمان کی رہائی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کی۔ تاہم، سال 2011 ءمیں سپریم کورٹ نے بھی مدعا علیہان کو رہا کرنے کا فیصلہ سنایا۔
مختاراں مائی نے عدالتی کاروائی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس مجھے کہا کرتے تھے، ’بیٹا میں بھی انصاف کے لیے سڑکوں پر ہوں۔ آپ بھی سڑکوں پر ہو۔ انشاءاللہ، مجھے بھی انصاف ملے گا آپ کو بھی انصاف ملے گا۔ جب خود ان کو انصاف مل گیا تو انہیں غریب مختاراں بھول گئی۔‘
مختاراں مائی نے رونے کے انداز میں بتایا کہ 12 سال گزر گئے۔ جب سے ان کے ساتھ یہ وحشت ناک واقعہ پیش آیا ہے، وہ آج تک اپنی نیند نہیں سو سکی ہیں ۔اور انہیں سونے کے لیے نیند کی گولیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ آج بھی گھر والوں سے چھپ کر گھنٹوں روتی رہتی ہیں۔
انہوں نے بھارت کی متاثرہ لڑکی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’حوصلہ نہ ہارنا، اپنی آواز نہ دبانا اور خود کو مضبوط رکھنا‘۔
دوسری جانب، بھارت میں ’پیپلز یونین آف ڈیموکریٹک رائٹس‘ سے وابستہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن گوتم نولکھا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں بھارت میں اجتماعی زیادتی کے واقعے کی مذمت کی۔
مغربی بنگال کے ایک گاؤں سبالپور میں رواں ہفتے پنچائت نے ایک لڑکی کو دوسرے مذہب کے لڑکے سے محبت کرنے کا قصوروار قرار دیتے ہوئے، اسے 25 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا کہا تھا۔ غربت کی وجہ سے لڑکی کے گھر والے جرمانے کی رقم ادا نہ کر سکے۔ جس پر پنچائت نے 12 مردوں کو اس لڑکی سے جنسی زیادتی کا حکم دیا۔ ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ کے مطابق، لڑکی کا تعلق ہندو، جبکہ لڑکے کا تعلق مسلمان خاندان سے ہے۔
گوتم نولکھا نے بھی تسلیم کیا کہ دور دراز کے علاقوں میں پولیس میں شامل لوگ بھی روایات کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اور یوں، انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سطح پر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر ایسے واقعات پر دباوٴ بڑھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملزمان گرفتار ضرور ہوئے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے، آڈیو پر کلک کیجئیے:
ان خیالات کا اظہار پاکستان میں خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کی سرگرم کارکن مختارں مائی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کیا۔
مختاراں مائی کا تعلق ضلع مظفرگڑھ کے گاوٴں میروالا سے ہے، اور وہ بذات خود اپنے اس دعوی پر عدالتوں سے انصاف مانگتی رہی ہیں کہ وہ جون 2002ء میں مقامی پئچائت کے فیصلے کے تحت، دن دیہاڑے اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئیں۔ مختاراں مائی کے مقدمے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور توجہ ملی۔ ستمبر 2002ء میں دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے چھ ملزمان کو، جن میں چار مبینہ طور پر عصمت دری کرنے والوں میں شامل تھے، سزائے موت سنائی۔ تاہم، سال 2005 ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ شواہد ناکافی ہیں، 6 میں سے 5 ملزموں کو رہا کردیا، جبکہ چھٹے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے مختاراں مائی اور حکومت کی اپیل پر ملزمان کی رہائی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کی۔ تاہم، سال 2011 ءمیں سپریم کورٹ نے بھی مدعا علیہان کو رہا کرنے کا فیصلہ سنایا۔
مختاراں مائی نے عدالتی کاروائی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس مجھے کہا کرتے تھے، ’بیٹا میں بھی انصاف کے لیے سڑکوں پر ہوں۔ آپ بھی سڑکوں پر ہو۔ انشاءاللہ، مجھے بھی انصاف ملے گا آپ کو بھی انصاف ملے گا۔ جب خود ان کو انصاف مل گیا تو انہیں غریب مختاراں بھول گئی۔‘
مختاراں مائی نے رونے کے انداز میں بتایا کہ 12 سال گزر گئے۔ جب سے ان کے ساتھ یہ وحشت ناک واقعہ پیش آیا ہے، وہ آج تک اپنی نیند نہیں سو سکی ہیں ۔اور انہیں سونے کے لیے نیند کی گولیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ آج بھی گھر والوں سے چھپ کر گھنٹوں روتی رہتی ہیں۔
انہوں نے بھارت کی متاثرہ لڑکی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’حوصلہ نہ ہارنا، اپنی آواز نہ دبانا اور خود کو مضبوط رکھنا‘۔
دوسری جانب، بھارت میں ’پیپلز یونین آف ڈیموکریٹک رائٹس‘ سے وابستہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن گوتم نولکھا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں بھارت میں اجتماعی زیادتی کے واقعے کی مذمت کی۔
مغربی بنگال کے ایک گاؤں سبالپور میں رواں ہفتے پنچائت نے ایک لڑکی کو دوسرے مذہب کے لڑکے سے محبت کرنے کا قصوروار قرار دیتے ہوئے، اسے 25 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا کہا تھا۔ غربت کی وجہ سے لڑکی کے گھر والے جرمانے کی رقم ادا نہ کر سکے۔ جس پر پنچائت نے 12 مردوں کو اس لڑکی سے جنسی زیادتی کا حکم دیا۔ ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ کے مطابق، لڑکی کا تعلق ہندو، جبکہ لڑکے کا تعلق مسلمان خاندان سے ہے۔
گوتم نولکھا نے بھی تسلیم کیا کہ دور دراز کے علاقوں میں پولیس میں شامل لوگ بھی روایات کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اور یوں، انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سطح پر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر ایسے واقعات پر دباوٴ بڑھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملزمان گرفتار ضرور ہوئے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے، آڈیو پر کلک کیجئیے: