جون2002ءمیں پاکستان کےجنوبی پنجاب سےتعلق رکھنے والی جنسی زیادتی کاشکار ہونے والی مختاراں مائی نے’وائس آف امریکا‘ کے پروگرام ’راوٴنڈٹیبل‘ میں بتایا کےعدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے سے اُنھیں شدید دکھ اورمایوسی ہوئی ہے، کیونکہ،
اُن کے مطابق، وہ حق پہ تھیں اور اُنھیں پورا یقین تھا کہ اُنھیں انصاف ملےگا-
مختاراں مائی نےمزید بتایا کہ عدالت پرسے اُن کا اعتماداٹھ گیاہے لیکن پھر بھی دوست احباب کے اصرار پر وہ عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کے اپیل دائر کریں گی – تاہم، ان کےمطابق وہ کوئی نئے شواہد جمع نہیں کریں گی-
معروف پاکستانی وکیل، اکرم شیخ نے بتایا کہ مختاراں مائی سے پوری ہمدردی ہے، لیکن اُن کا کہناتھا کہ عدالت کا ہر فیصلہ شواہد اورواقعات کی بنیاد پر ہوتا ہے-
’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے صدر، ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا کہ پاکستان میں گذشتہ پانچ برسوں میں عدالت کے فیصلے کے تحت، بقول اُن کے، 98 فیصد ملزمان کا بری ہونا ایک سوالیہ نشان ہے-
اُنھوں نے مزید کہا کہ ملک میں مختاراں مائی جیسےاور شہریوں کو انصاف دلوانے کے لیےضروری ہے کہ پنچائیت اور جرگہ نظام کو ختم کر کے تفتیشی نظام کو بہتر بنایا جائے اور موجودہ قانون میں ضروری اصلاحات کی جائیں -
سابق جسٹس وجیہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ مختاراں مائی عدالت کےفیصلےپرنظرثانی کی اپیل دائر کرتی ہیں تو اُنھیں اب بھی پُرامید ہونا چاہیئے۔ اُن کےمطابق، مختاراں مائی کی نظر میں اگر کوئی بات عدالت کے نوٹس سے رہ گئی ہے تو وہ اپنےفیصلے کوکالعدم قرار دےسکتی ہے۔
تفصیل کےلیےآڈیورپورٹ سنیئے: