رسائی کے لنکس

مختاراں مائی زیادتی کیس: پانچ افراد بری ایک کو عمر قید


مختاراں مائی (فائل فوٹو)
مختاراں مائی (فائل فوٹو)

حالیہ برسوں میں مختاراں مائی کو ناصرف اندرون ملک بلکہ کئی مغربی ملکوں میں بھی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے خاصی پذیرائی ملی اور انھی کی معاونت سے مختاراں مائی نے اپنے آبائی علاقے مظفرگڑھ کی تحصیل میر والہ میں بچیوں کے لیے ایک اسکول بھی بنایا۔

عدالت عظمیٰ نے 2002ء میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے اْس فیصلے کو برقرار رکھا ہے جس میں ایک شخص کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی جب کہ دیگر پانچ ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا گیا تھا۔

جمعرات کو سنائے گئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے پر انسانی حقوق کی علم بردار غیر سرکاری تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ”باعث حیرت اور مایوس کن“ قرار دیا۔

پاکستان میں خواتین کی حالت زار کا جائرہ لینے کے لیے قائم سرکاری ادارے ’نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن‘ کی چیئرپرسن انیس ہارون نے عدالت کے احاطے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث افراد میں سے بہت کم کو عدالتوں سے سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ ”اگر ایسے مشہور مقدمے کا فیصلہ ایسا آسکتا ہے جس سے ملزمان کی حوصلہ افزائی ہو تو یہ ہمارے لیے بڑے دکھ کی بات ہے۔“

سرکاری ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص پر ”اجتماعی زیادتی“ کا جرم ثابت ہونے کے باوجود دیگر ملزمان کو بری کر دینا تعصب اور غیر موثر نظام انصاف کو ظاہر کرتا ہے۔ ”یہ شواہد میں ردوبدل اور حقائق کو مسخ کرنے کی واضح مثال ہے۔“

نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی علم بردار تنظیم ”ہیومن رائٹس واچ“ نے ایک بیان میں عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ناکافی شواہد کا جواز پیش کرنا بے معنی ہوگا کیوں کہ متعدد مقدموں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ مزید شواہد کے حصول اور تفتیش کا عمل دہرانے کا حکم دینے کی اپنی اہلیت ثابت کر چکی ہے۔

صوبہ پنجاب کے شہر مظفرگڑھ میں جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختاراں مائی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اُن کا عدالت پر سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ ”اس سے بڑی عدالت الله کی ہے،الله تعالی مجھے انصاف دے گا۔“

اُن کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دور دراز علاقوں میں با اثر وڈیروں اور جاگیر داروں کی طرف سے پنچائیتی نظام کا استعمال کرتے ہوئے کمزور افراد اور اپنے مخالفین پر زیادتیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ مختاراں مائی نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد اُنھیں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو سلامتی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

ملزم عبدالخالق پولیس کی حراست میں (فائل فوٹو)
ملزم عبدالخالق پولیس کی حراست میں (فائل فوٹو)

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی مختاراں مائی کو مقامی پنچائیت کے حکم پر جون 2002ء میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد دو پنچائیتیوں سمیت 14 افراد کے خلاف مقدمہ قائم کرکے اْن کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

اگست 2002ء میں ڈیرہ غازی خان میں انسداد دہشت گردی نے آٹھ ملزمان کو بری جب کہ چھ افراد عبد الخاق، اللہ دتہ ، غلام فرید، فیاض، محمد رمضان اور فیض محمد کو موت کی سزا سنائی تھی۔

اس فیصلے کے خلاف ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور 2005ء میں ہائی کورٹ کے ملتان بنچ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے پانچ افراد کو بری جب کہ عبدالخالق کی موت کی سزا کو کم کرکے عمر قید میں بد ل دیا۔

عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے تما م افراد کو جیل بھجوا دیاتھا۔ مختاراں مائی کے مقدمے کی پیروی معروف قانون دان اعتراز احسن کر رہے تھے۔ مختاراں مائی کا موقف ہے کہ اْنھیں میروالا قصبے میں پنچائیت کے حکم پر اس لیے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا کیوں کہ اْن کے چھوٹے بھائی پر اونچی ذات مستوئی خاندان کی لڑکی کے ساتھ زیادتی کا الزام تھا۔

مختاراں مائی زیادتی کیس: پانچ افراد بری ایک کو عمر قید
مختاراں مائی زیادتی کیس: پانچ افراد بری ایک کو عمر قید

حالیہ برسوں میں مختاراں مائی کو ناصرف اندرون ملک بلکہ کئی مغربی ملکوں میں بھی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے خاصی پذیرائی ملی اور انھی کی معاونت سے مختاراں مائی نے اپنے آبائی علاقے مظفرگڑھ کی تحصیل میر والہ میں بچیوں کے لیے ایک اسکول بھی بنایا۔

اُنھوں نے کئی ممالک کے دورے بھی کیے اور کینیڈا کی ایک یونیورسٹی نے بچیوں کو تعلیم دلوانے کی خدمات پر اْنھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا۔ مختاراں مائی کی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’ان دی نیم آف آنر‘ بھی شائع کی جا چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG