پروگرام 'جہاں رنگ' میں تجزیہ کاروں نے میزبان بہجت جیلانی سے بات کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ اور پاکستان کے مل کر کام کرنے کی کوششوں کے عزم کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے 'ڈو مورِ' کے مطالبے کو دبائو کا حربہ سمجھنے کی بجائے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے مل کر کام کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔
تجزیہ کار سنگین شاہ نے کہا ہے کہ امریکہ انٹیلیجنس سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر پاکستان کو مخصوص کارروائی کرنے کو کہتا ہے اور پاکستان عام طور پر اس بنیاد پر ضروری قدم بھی اٹھاتا ہے۔ لیکن، بعض اوقات معلومات میں کسی 'کنفیوزن' کی بنیاد پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر طیب محمود نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا رول اہم ہے اور امریکہ اس حقیقت کو مانتا بھی ہے۔ لیکن، صورتحال کی پچیدگی کی وجہ سے افغانستان کے اندر اور باہر متعلقہ فریقوں کو مل بیٹھ کر بہتر انداز میں 17 سال سے جاری تنازعے کو حل کرنے پر غور کرنا چاہئے۔
افغان تجزیہ کار انیس الرحمٰن پر امید ہیں کہ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان رابطوں اور ہم آہنگی سے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ وہ حالیہ مثبت پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے اعتماد کے فقدان کے ختم ہونے اور مصالحت اور قیام امن کے لئے نتیجہ خیز ماحول استوار ہونے کی امید کرتے ہیں۔
انیس الرحمٰن انڈونیشیا کی حکومت کی طرف سے افغانستان، پاکستان اور انڈونیشا کے علما کے سہ فریقی اجلاس کی میزبانی پر آمادگی کے اظہار کو بھی خوش آیئند قرار دیتے ہیں، جس کا مقصد افغان جنگ کا پرامن حل تلاش کرنا ہے۔