انڈونیشیا کی حکومت نے افغانستان، پاکستان اور انڈونیشا کے علما کے سہ فریقی اجلاس کی میزبانی 11 مئی کو جکارتہ میں کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کا مقصد افغان جنگ کا پرامن حل تلاش کرنا ہے۔
افغان صدر کے ایک معاون اکرم خپلواک نے اس بات کا انکشاف جمعہ کو دیر گئے جکارتہ میں انڈونشیا کے رہنماؤں سے بات چیت کے بعد کیا ہے۔
انڈونیشیا کے صدر نے رواں سال جنوری میں علما کے سہ فریقی اجلاس کی تجویز پیش کی تھی۔
خپلواک نے اپنے متعدد ٹوٹئر پیغامات میں کہا کہ "افغانستان، پاکستان اور انڈونیشیا کے معروف علماء اس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ "
انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے انڈونیشیا کی سنجیدہ کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے علما کا ایک 20 رکنی وفد اس اجلاس میں شرکت کرے گا۔
انڈونیشیا کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس اجلاس میں ہونے والے مباحثے کے بعد ایک متفقہ فتوے کی توقع کرتے ہیں جس کے ذریعے طالبان کو تشدد ختم کر کے کے افغان حکومت کے ساتھ پرامن مذاکرات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ طالبان کا وفد بھی اس کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
تاہم طالبان نے پہلے ہی اس مجوزہ کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے علما سے کہا ہے کہ وہ کانفرنس میں شرکت نا کریں۔
رواں سال مارچ میں طالبان نے کہا تھا کہ اس اجلاس کا مقصد افغانستان پر حملہ کرنے والی غیر ملکی فورسز کی موجودگی کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے، ان کا اشارہ افغانستان میں موجود امریکی فورسز کی طرف ہے۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ اس " گمراہ کن" کوشش کا مقصد غیر ملکی قبضے کے خلاف جاری "مقدس جہاد" کو" غیر قانونی" قرار دینا ہے۔
بیان میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ "افغانستان میں حملہ کرنے والے کو یہ موقع نا دیں کہ وہ آپ کے نام اور آ پ کی اس (اجلاس) میں شرکت کو اپنے غلط عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرے۔"
انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑا مسلمان ملک ہے اور تقریباً 26 کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 87 فیصد ہیں۔
افغانستان کے عہدیدار طالبان کے خلاف انڈونیشیا کے علماء کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے بھی انڈونیشیا کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے سہ فریقی اجلاس کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت کرتا ہے تاہم اسلام آباد افغان طالبان کی حمایت کرنے کے الزام کو مسترد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ پاکستان کے استحکام کے لیے ہمسایہ ملک میں امن ضروری ہے۔
دوسری طرف طالبان کا موقف کہ وہ اس وقت تک لڑائی ختم کر کے افغان حکومت سے بات چیت شروع نہیں کریں گے جب تک غیر ملکی فورسز افغانستان نے نکل نہیں جاتی ہیں۔
افغانستان کے 407 اضلاع میں سے نصف پر یا تو باغیوں کا کنٹرول ہے یا وہاں لڑائی جاری ہے اور حالیہ ہفتوں میں انھوں نے اپنی عسکری کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ دوسری طرف افغان فورسز نے امریکی فورسز کی فضائی مدد کے ساتھ ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں بھی تیز کر دی ہیں۔