دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے طاقت ور دوربین پیر کے روز آخرکار اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ اس کی یہ منزل زمین سے دس لاکھ میل کے فاصلے پر ہے، جسے طے کرنے میں اسے ایک مہینہ لگا۔
زمین سے اتنے طویل فاصلے پر دوربین نصب کرنے کا مقصد کائنات کی گہرائیوں اور اس میں پنہاں اسرار و رموز کا کھوج لگانا اور اس کے ارتقا کے مراحل کو سمجھنا ہے۔
جمیز ویب سپیس نامی یہ دوربین ایک ماہ قبل ایک راکٹ کے ذریعے خلا کے سفر پر روانہ کی گئی تھی۔
اس دوربین میں نصب آئینوں کی مالیت دس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، تاہم اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد اب اصل کام اسے ایک ایسے انداز میں اپنی جگہ پر نصب کرنا ہے جہاں سے وہ مطلوبہ معلومات حاصل کر کے زمینی مرکزکو بھیجے گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ مرحلہ جون میں مکمل ہو گا اور دنیا کی یہ مہنگی ترین خلائی دوربین زمینی مراکز کو وہ معلومات بھیجنا شروع کر دے گی جس کی ماہرین فلکیات کو ضرورت ہے۔
خلائی دوربین کی اپنی منزل مقصود کی جانب روانگی کے موقع پر امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں قائم زمینی مرکز نے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم کائنات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کہ طرف ایک قدم اور قریب چلے گئے ہیں۔
اس دوربین کی مدد سے ماہرین فلکیات ان چیزوں کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے جو اب تک ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کائنات تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے اس وقت وجود میں آئی تھی جب کہکشائیں اور ستارے بننا شروع ہوئے اور ان کے نظام شمسی وجود میں آنے لگے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب بھی نئے ستارے اور ان کی نظام بن رہے ہیں۔
کائنات کے نقطہ آغاز کو سائنس دان بک بینگ کا نام دیتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بہت بڑا ٹھوس وجود اپنی اندورنی کشش کے دباؤ کے باعث پھٹ گیا، جس سے بڑے پیمانے پر دہکتے ہوئے ٹکڑے اور گرد و غبار پیدا ہوا۔ وہی ٹکڑے اور گرد و غبار رفتہ رفتہ کہکشاؤں میں ڈھلتے چلے گئے۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ یہ دوربین ماہرین کو ممکنہ طور پر یہ سمجھنے میں بھی مدد دے گی کہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی۔
دنیا کی اس سب سے بڑی اور مہنگی دوربین کے مرکزی شیشے کا قطر 21 فٹ ہے اور اس پر سونے کا ملمع کیا گیا ہے۔
پیر کے روز دوربین لے جانے والے راکٹ نے اسے سورج اور زمین کے درمیان اس محور میں داخل کر دیا جہاں زمین اور سورج کی کشش ثقل متوازن ہو جاتی ہے۔ اب یہ سات ٹن وزنی دوربین اس مدار میں گردش کرے گی اور اس کے حساس آلات کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اس کا رخ ہمیشہ زمین کی اس جانب رہےگا جہاں رات ہو گی۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)