آل آنڈیا کانگریس کے ترجمان میم افضل کا کہنا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت بدلنے کے لیے آئین میں ترمیم کے لیے ’’غیر آئینی طریقہ کار‘‘ استعمال کیا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ’’تاریخی اعتبار سے اب تک کشمیر کے حوالے سے 45 آئینی ترامیم کی گئی ہیں؛ اور ہر ترمیم کو جموں و کشمیر کی اسمبلی نے منظور کیا‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’اس بار چونکہ یہ منظوری بھارتی کشمیر کے گورنر کے ذریعے لی گئی جو عوامی نمائندہ نہیں ہے، اس لیے کانگریس پارٹی کا مؤقف ہے کہ یہ ایک غیر آئینی اقدام ہے، جسے جموں اور کشمیر کے عوام کی حمایت حاصل نہیں‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’بھارت میں مودی سرکار کے اس فیصلے کو عوامی حمایت حاصل ہے جب کہ موجودہ سیاسی ماحول میں اپوزیشن جماعتوں کے لیے اس مسئلے پر مخالفت کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے‘‘۔
دوسری جانب، امریکی تھنک ٹینک ’یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘ سے وابسطہ دہلی میں تجزیہ کار وکرم سنگھ نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کے نزدیک کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو جمہوری طریقے سے بدلا گیا اور بھارتی پارلیمان کی اکثریت نے اس تجویز کو منظور کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’’اس لیے، بھارتی انتظامیہ اس تاثر سے انکار کرتی ہے کہ جموں اور کشمیر کو جبری طور پر بھارت کا حصہ بنایا گیا ہے‘‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا کشمیر پر موجودہ اقدامات بھارت کے لیے بہتر سیکورٹی کی ضمانت دیتے ہیں، وکرم سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہوگا‘‘۔
وکرم سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’اس فیصلے کا بھارت کی سیکورٹی صورتحال پر کیا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ پاکستان کے جوابی اقدامات کو دیکھتے ہوئے ہی کیا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے کشمیر میں حفاظتی انتظامات سخت کیے ہیں، تاکہ کشمیری گروہوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی پر تشدد کاروائیوں کو روکا جا سکے‘‘۔