جاپان میں حکام کے مطابق فوکو شیما میں نقصان رسیدہ جوہری توانائی کی تنصیب کے قریب سمندر میں تابکار آئیوڈین کی سطح قانونی مقدار سے تین ہزارگنا زائد بتائی گئی ہے۔
جاپان کے جوہری تحفظ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری پانی کے جس نمونے پر تحقیق سے تابکاری کی اس تشویش ناک سطح کا پتہ لگایا گیا ہے وہ سمندر میں ایک ایسے مقام سے لایا گیا تھا جو فوکو شیما پلانٹ سے 300 میٹر دور ہے۔
گیارہ مارچ کو 9شدت کے طاقتور زلزلے اور اس کے نتیجے میںآ نے والے تباہ کن سونامی نے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ میں کولنگ سسٹم کو تہس نہس کردیا تھا جس کے بعد سے اس کے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج ہو رہاہے۔
جاپانی جوہری توانائی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق کے ذریعے وہ سمندری پانی میں تابکاری خارج کرنے والے آئیوڈین کی سطح میں اضافے کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔
منگل کوحاصل کیے گئے پانی کے نمونے کے تجزیے سے اس میں تابکاری خارج کرنے والے آئیوڈین کی سطح قانونی حددود سے 3,335 گنا زیادہ تھی۔ جاپانی ماہرین کے مطابق یہ انکشاف باعث تشویش ہے لیکن فوری طور پر اس سے انسانی صحت کوکوئی خطرہ نہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے بدھ کو زیر اعظم ناتو کان کو ٹیلی فون کیا اور گفتگو میں اُنھوں نے اس جوہری بحران اور قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے جاپانی رہنما کوہر طرح کی مدد کی پیشکش کی۔
جاپان میں اس زلزلے اور سونامی میں ہلاک اور لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے ستائیس ہزار بتائی گئی ہے اور اٹھارہ ہزار افراد پر مشتمل امریکی بحریہ کی ایک ٹاسک فورس امدادی کارروائیوں میں مقامی فورسز کی معاونت کررہی ہے۔
فرانس کے صدر نیکولاسارکوزی جاپان کو مدد کی پیش کش کرنے کے سلسلے میں جمعہ کو ٹوکیو پہنچیں گے۔ جوہری توانائی کے فرانسیسی ماہرین پہلے ہی فوکو شیما پلانٹ سے تابکاری کے اخراج کو روکنے اور اس کے چھ جوہری ری ایکٹروں کے کولنگ سسٹم کی مرمت میں مقامی حکام کی مدد کررہے ہیں۔
فوکو شیما پلانٹ کے نگران ادارے ، ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی، نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ادارے کے صدر ماساتاکا شیموزی کو ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کردیا گیاہے او ر نیوکلیئر بحران سے نمٹنے کی کوششوں کی قیادت کمپنی کے چیئر مین کو سونپ دی گئی ہے۔
وزیر اعظم کان نے منگل کو جاپانی پارلیمان کو بتایا تھا کہ پلانٹ کی نگران کمپنی نے جوہری تنصیب کی سونامی سے حفا ظت کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے تھے جو اُس کی ناکامی کا ثبوت ہے۔
زلزلے سے اُٹھنے والی سمندری لہروں کی بلندی تقریباََ بارہ میٹر تھی جو پلانٹ کو سمندری پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی گئی دیوار سے دو گناہ زیادہ تھی۔
جوہری ماہرین کا ماننا ہے کہ زلزلے اور سونامی کی وجہ سے کولنگ سسٹم کا کلیدی اور ہنگامی نظام تہس نہس ہونے کے بعددرجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے سے پلانٹ کے چھ میں سے تین ری ایکٹروں میں نیوکلیئر فیول راڈ کے ذخائر جزوی طور پر پگھل چکے ہیں۔
اس کے علاوہ خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ تین میں سے کم سے کم دو ری ایکڑوں کے اُن چیمبروں کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے جن کا کام تابکاری کے اخراج کو روکنا ہوتا ہے۔اس کا تازہ ثبوت منگل کو اُس وقت ملا جب ماہرین نے پلانٹ کے باہر مٹی کے نمونوں میں تیسرے نمبر کے ری ایکٹر کے فیول راڈ میں استعمال ہونے والی پلوٹینیم کے ذرات کی موجودگی کی تصدیق کی۔
دریں اثناء پلانٹ میں کام کرنے والے ماہرین اور اہلکارانتہائی مشکل حالات میں غیر مناسب خوراک اور نیند کی کمی کے باجود جوہری تنصیب کے تین ری ایکٹروں کے تہہ خانے اور ملحقہ سرنگوں سے پانی نکالنے کی ان تھک کوششوں میں مصروف ہیں۔
ایک موقع ایسا بھی آیا جب دوسرے نمبر کے ری ایکٹر میں موجود پانی، جس میں تابکاری کی سطح معمول سے ایک ہزار گناہ زیادہ ہے، قریبی سمندری پانی میں گرنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا لیکن بدھ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عمارت کے ایک تہہ خانے میں اس کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے۔
فیول راڈز کو غیر ضرور ی طور پر گرم ہونے سے روکنے کے لیے اہلکاروں کو ری ایکٹروں کے اندر مسلسل پانی پھینکتے رہنے کی ضرورت ہے جبکہ تابکاری سے متاثرہ پانی کوبھی اُن کے لیے نکالنا ناگزیر ہے تاکہ وہ پانی پھینکنے والے پمپوں کو تبدیل اور اُن کی مرمت کرسکیں۔ ماہرین کے خیال میں انتہائی سنگین حالات میں فیول راڈز میں آگ بھڑک سکتی ہے جس سے ندی کی طرح تابکاری کا اخراج ہو گا یا پھر تابکار مادہ ری ایکٹروں کے فرش کو پگھلاتے ہوا زمین دوز پانی کے نظام میں شامل ہو کر وسیع پیمانے پر تابکاری پھیلا سکتا ہے۔
پلانٹ کے اردگرد علاقوں میں دودھ اور سبزیوں کے فارمز میں تابکاری کے اثرات کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ٹوکیو اور دیگر شہروں کے پانی کے نلکوں میں بھی کم مقدار میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ کے بعض ملکوں میں بھی انتہائی کم سطح کی تابکاری کی نشاندہی کی گئی ہے۔متاثرہ پلانٹ کے اردگرد 20 کلومیٹر کے علاقے میں گھروں سے لاکھو ں افراد کو دوسرے شہروں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔