جاپان کی ایک توانائی کمپنی نے منگل کو اپنے ایک جوہری ری ایکٹر کو دوبارہ بحال کر دیا ہے جو کہ 2011ء میں فوکو شیما کے حادثے کے تناظر وضع کردہ نئے حفاظتی ضوابط کے بعد چلایا جانے والا پہلا ری ایکٹر ہے۔
کیوشو الیکٹرک پاور کمپنی کا کہنا ہے کہ سنڈائی میں واقع اس کی تنصیب سے توقع ہے کہ جمعہ کو توانائی کی پیداوار شروع ہو جائے گی اور آئندہ ماہ تک یہ اپنی کارکردگی کی پوری سطح پر پہنچ جائے گی۔
جاپان میں جوہری تنصیبات حفاظتی جانچ پڑتال کے لیے تقریباً دو سال تک بند رہیں۔
حکومت چاہتی ہے کہ 2030ء تک ملک کی توانائی کی ضروریات کا بیس فیصد سے زائد جوہری ذریعے سے حاصل ہو سکے لیکن اسے ان تنصیبات کی بندش کی وجہ سے درآمد شدہ معدنی ایندھن پر گزارا کرنا پڑا۔
جاپانیوں کی اکثریت جوہری پلانٹس کو دوبارہ چالو کرنے کی مخالف کرتی ہے۔
منگل کو بھی سینکڑوں افراد سنڈائی میں جوہری تنصیب کے باہر جمع ہوئے اور ایک مظاہرے کے ذریعے ری ایکٹر دوبارہ چالو کرنے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ مظاہرین میں سابق وزیراعظم ناوتوکان بھی شامل تھے جن کے دور حکومت میں فوکو شیما کے جوہری پلانٹ کا واقعہ پیش آیا تھا۔
کان نے کہا کہ "ہم حادثوں کی پیش گوئی نہیں کر سکتے، اسی لیے حادثے ہوتے ہیں، اور یہاں بھی حادثے سے بچنے کے لیے تمام ضروری احتیاطی تدابیر نہیں اپنائی گئیں۔"
مارچ 2011ء میں آنے والے طاقتور ترین زلزلے سونامی کے باعث فوکو شیما کے جوہری پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ سے زائد افراد کو یہاں سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔