جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی سفارش کر دی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کی صورت میں جسٹس عائشہ ملک پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی پہلی خاتون جج ہوں گی۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا اجلاس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی صدارت میں ہوا جس میں جسٹس عائشہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں تقرر کی منظوری پانچ چار سے دی گئی۔
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد نو ہے جن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، سپریم کورٹ کا ایک سابق جج، وفاقی وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ شامل ہوتے ہیں۔
قواعد کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں تجویز دی جاتی ہے اور پھر اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر اس کے نام کی منظوری دی جاتی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد نے گزشتہ ماہ جسٹس عائشہ ملک کا نام ایک بار پھر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تجویز کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، سابق جج سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان اور وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر کی حمایت کی جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے حالیہ اجلاس میں بھی ان کے تقرر کی مخالفت کی۔
رپورٹس کے مطابق ان ارکان نے زور دیا کہ سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے سنیارٹی کے قانون پر عمل درآمد کرنا چاہیے اور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کا ہی تقرر پہلے سپریم کورٹ میں ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر تھیں۔ وہ مارچ 2012 میں ہائی کورٹ کی جج بنی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق وہ 2031 تک سپریم کورٹ کی جج رہیں گی اور ممکنہ طور پر جنوری 2030 میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر کرنے کی منظوری دینے کے لیے دوسری بار سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا گیا تھا۔
ستمبر 2021 کے آغاز میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کو بطور جج سپریم کورٹ تعینات کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور اکثریتی ووٹ نہ ملنے کے باعث ان کی تعیناتی نہیں ہوسکی تھی۔
اس وقت جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کا معاملہ ٹائی ہو گیا اور کمیشن کے چار چار ارکان نے حق اور مخالفت میں ووٹ دیے تھے۔ اس وقت کمیشن کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرونِ ملک تھے جس کی وجہ سے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہی ہوا تھا۔ اس اجلاس سے قبل پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر بار کونسلز نے سپریم کورٹ کے باہر جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی پر شدید احتجاج بھی کیا تھا۔
وکلا تنظیموں کا مؤقف تھا کہ سپریم کورٹ میں جج کے تقرر کے لیے سنیارٹی کے اصول کو مدِ نظر رکھا جائے اور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں کیا جانا چاہیے۔
اس بار بھی یہ تنقید کی جا رہی ہے اور وکلا تنظیموں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی کیا جائے۔ یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ اگر اجلاس ملتوی نہ کیا گیا تو وکلا تنظیمیں ملک گیر احتجاج کریں گی اور تمام عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
دوسری جانب بعض حلقوں نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر کو مثبت قدم قرار دیا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کون ہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود جسٹس عائشہ ملک کے تعارف کے مطابق 1967 میں پیدا ہونے والی عائشہ ملک نے اپنی ابتدائی تعلیم پیرس، نیویارک اور پھر کراچی میں حاصل کی۔ کراچی سے بی کام کرنے کے بعد انہوں نے لاہور سے وکالت (ایل ایل بی) کی ڈگری حاصل کی۔
ویب سائٹ پر موجود تعارف کے مطابق اُنہوں نے امریکہ کے ہاورڈ لاء اسکول سے ایل ایل ایم کیا جس کے بعد پاکستان واپس آکر انہوں نے وکالت کا آغاز کیا۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے 1997 سے لے کر 2001 تک مرحوم قانون دان فخر الدین جی ابراہیم کی لا فرم میں کام کیا۔ 2001 میں جسٹس عائشہ ملک شادی کے بعد لاہور آ گئیں اور یہاں وکالت شروع کر دی۔
بحیثیت وکیل وہ لاہور ہائی کورٹ، اسپیشل ٹریبیونلز، ڈسٹرکٹ کورٹس، بینکنگ کورٹس اور آربٹریشن سینٹرز میں کیسز لڑتی رہی ہیں۔
وہ 2012 میں لاہور ہائی کورٹ کی جج مقرر ہوئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں عائشہ ملک چوتھے نمبر پر ہیں اور بطور جج لاہور ہائی کورٹ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ دو جون 2028 ہے۔