رسائی کے لنکس

امریکی معیشت سست روی کی شکار: جیب بش


اُنھوں نے الزام لگایا کہ ڈیموکریٹس نے ’ملک کو ضابطوں میں الجھا کر رکھا ہے‘، جس کے باعث، ’ملک کی معاشی افزائش سست روی کا شکار ہے‘۔ بقول اُن کے، ’ہمیں ایسے صدر کی ضرورت ہے جو واشنگٹن کی ساری ثقافت کو تہ و بالا کردے‘۔ اور، ’میں وہی صدر ہوں گا‘

فلوریڈا کے سابق گورنر، جیب بش، جو سابق صدور کے بیٹے اور بھائی ہیں، اُنھوں نے پیر کے روز سال 2016 کا صدارتی انتخاب لڑنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ وہ ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے میدان میں اترنے والے گیارہویں امیدوار ہیں، جب کہ آئندہ دِنوں کے دوران مزید امیدوار میدان میں اتر سکتے ہیں۔

جیب بش نے میامی میں منعقدہ ریلی میں یہ باضابطہ اعلان کیا، جس پر اُن کے حامیوں نے تالیاں بجائیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کی حالت ’بہت خراب ہے‘۔

اُنھوں نے الزام لگایا کہ ڈیموکریٹس نے ’ملک کو ضابطوں میں الجھا کر رکھا ہے‘، جس کے باعث، ’ملک کی معاشی افزائش سست روی کا شکار ہے‘۔

بقول اُن کے، ’ہمیں ایسے صدر کی ضرورت ہے جو واشنگٹن کی ساری ثقافت کو تہ و بالا کردے‘۔ اور، ’میں وہی صدر ہوں گا‘۔

ریپبلیکن پارٹی کےحلقے میں ’کنزرویٹوز‘ کی تعداد زیادہ ہے جو اپنی سوچ کے حامل ووٹروں کے لیے خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم سے متعلق ایک وڈیو میں، بش نے کہا ہے کہ وہ ووٹروں کے ایک وسیع تر گروپ کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس وڈیو میں خواتین، اقلیتوں اور اپاہج بچوں کو دکھایا گیا ہے، جس میں بش کہتے ہیں کہ، ’میری اصل سوچ کی بنیاد ہمارے معاشرے کے اُس شعبے کی نمائندگی کرنا ہے، جسے سب سے آگے رہنا چاہیئے، نہ کہ پیچھے‘۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ’ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ ہے نئی قیادت، جس کی اساس قدامت پسند اصول ہیں، جس پر ہم عمل درآمد کرتے ہیں، تاکہ لوگ محسوس کریں کہ اُن کی حقیقی نمائندگی ہو رہی ہے‘۔

باسٹھ برس کے بش نے اپنی انتخابی مہم کے لیے کافی رقوم اکٹھی کی ہیں، اور ابتدا میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہی ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ امیدوار ہوں گے۔

لیکن، حال ہی میٕں سیاسی آرا پر مشتمل جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی گوٹ دو دیگر امیدواروں کے ساتھ پھنسی ہوئی ہے، جو ہیں: فلوریڈا سے سینیٹر مارکو روبیو، جو اِس دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں؛ اور وسکونسن کے گورنر اسکاٹ واکر، جنھوں نے ابھی باضابطہ طور پر امیدوار بننے کا اعلان نہیں کیا۔ انتخاب سے قبل کی رائے دہی میں ریپبلیکن پارٹی کے دیگر امیدوار زیادہ پیچھے نہیں۔

بش کی انتخابی مہم کا آغاز اتوار کو الیکشن لوگو ’جیب‘ سے شروع ہوا، جس میں اُن کے نام کا آخری حصہ شامل نہیں۔ ان جذبات کو اجاگر کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ کچھ ووٹر تیسرے بش کو صدارت کے لیے ووٹ دینے پر رضامند نہیں لگتے، جن سے پہلے اُن کے والد جارج ایچ ڈبلیو بش اور اُن کے بھائی صدر جارج ڈبلیو بش رہے ہیں، جنھوں نے آٹھ برسوں تک عراق کی غیرمعروف جنگ کی نگرانی کی۔

جیب بش نے اپنے اصل خیالات نمایاں رکھنے کا عہد کیا، خصوصی طور پر امریکی امیگریشن اور تعلیمی معیار شامل ہے، جو قدامت پسند ووٹروں میں غیرمعروف ہیں، جو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں ریپبلیکن کی صدارتی انتخابی عمل کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے پہلے صدارتی امیدواروں کے آپسی مقابلے جنوری میں ہوں گے، جس کے بعد نومبر 2016ء کے قومی انتخاب میں دو امیدوار بالآخر ایک دوسرے کے خلاف مباحثے میں شریک ہوں گے۔ جیتنے والا جنوری، 2017ء میں وائٹ ہاؤس میں پہنچے گا، اور صدر براک اوباما سے اقتدار لے گا۔ ملک کے آئین کی رو سے، صدر دو بار عہدے پر رہ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG