اردن اسرائیل کے ساتھ پانی کے بدلے توانائی کی فراہمی کے اس معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا جس کی توثیق گزشتہ ماہ ہونی تھی۔ یہ بات جمعرات کے روز اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے الجزیرہ ٹی وی پر ایک انٹر ویو میں کہی۔
رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ صفادی نے ایک انٹرویو میں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ اسرائیل کے تنازع کے حوالے سے کہا کہ اس علاقائی پراجیکٹ کے بارے میں ہم نے علاقائی سطح پر مذاکرات کئے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ اس جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس پر اب پیش رفت نہیں ہو سکے گی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اردن کی تمام کوششیں اس کارروائی کے خاتمے پر مرکوز تھیں جسے انہوں نے اسرائیل کے ہاتھوں حماس کے زیر انتظام محصور غزہ میں وحشت ناک انتقامی کارروائی قرار دیا ۔
صفادی نے کہا کہ اردن اس بارے میں کسی ڈائیلاگ میں شامل نہیں ہوگا کہ جنگ کے بعد غزہ کو کون چلائے گا ۔کیوں کہ اس وقت ایسی کسی بات چیت کو اسرائیل کے لیے اس بارے میں ایک گرین لائٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی چاہتا ہے کرے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر انٹر نیشنل کمیونٹی اس بارے میں بات کرنا چاہتی ہے تو اسے اب جنگ کو بند کروانا چاہئے۔
اسی اثنا میں رائٹرز نے ایک اور رپورٹ میں بتایا ہے کہ فرانس نے ایران کو انتباہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے تنازع کو پورے خطے میں پھیلانے سے گریز کرے ۔
فرانس کی وزیر خارجہ کے مطابق انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے جمعرات کے روز کہا ہے کہ اگر غزہ کا تنازع پورے خطے میں پھیل گیا تو تہران پر اس کی بھاری ذمہ داری عائد ہوگی ۔
کیتھرین کولونانے جنیوا میں اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہ کے ساتھ ایک بالمشافہ ملاقات کے بعد کہا کہ غزہ میں جاری تنازع کی توسیع سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا اور ایران پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گی ۔
یہ گفتگو فرانسیسی اور ایرانی عہدے داروں کے درمیان تازہ ترین تھی جب کہ پیرس خاص طور پر اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی کوشش کررہا ہے۔
فرانس اور ایران کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں فرانس کے چار شہریوں کی عارضی گرفتاریوں کی وجہ سے بھی کشیدہ ہوئے ہیں جن کے بارے میں فرانس کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں کسی حکومت کی جانب سے یرغمال بنائے جانے کے مترادف ہیں ۔
وزیر خارجہ نےایران میں زیر حراست چاروں فرانسیسی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جن کی صورتحال بقول ان کےانتہائی پریشان کن ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم