پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک انگریزی روزنامے سے وابستہ صحافی نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی ہو گئے ہیں۔
احمد نورانی انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ سے وابستہ ہیں جنہیں جمعے کو نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں ’زیرو پوائنٹ‘ کے قریب تشدد کا نشانہ بنایا۔
اخبار 'دی نیوز' کے ایڈیٹر انویسٹیگیشن انصار عباسی نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چھ تھی جن کے تشدد سے احمد نورانی کو سر پر کئی چوٹیں لگی ہیں۔
موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے احمد نورانی کی گاڑی کو روکنے کے بعد اُنھیں زبردستی باہر نکالا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
تاہم راہگیروں کے وہاں جمع ہونے کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے۔
حملے کے بعد احمد نورانی کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اطلاعات کے مطابق وہ ہوش میں ہیں اور اُنھیں آئندہ 24 گھنٹوں تک زیرِ نگرانی رکھا جائے گا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
احمد نورانی سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر خاصے سرگرم ہیں۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس سے متعلق مقدمے سے متعلق ایک خبر کے سلسلے میں احمد نورانی نے معاملے کی سماعت کرنے والے ایک جج جسٹس اعجاز افضل کا موقف جاننے کے لیے اُنھیں فون کیا تھا جس پر اُنھیں توہینِ عدالت کے الزام میں اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔
تاہم بعد میں اُنھوں نے عدالت میں معافی نامہ جمع کرادیا تھا۔
اس سے قبل وفاقی دارالحکومت ہی میں ایک اور صحافی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر موٹر سائیکل سواروں نے پتھر پھینکے تھے تاہم اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
احمد نورانی پر حملے کی صحافی تنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے بھی شدید مذمت کی گئی ہے۔
سینئر صحافی ضیا الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ملک میں عدم برادشت کے سبب صحافیوں کے لیے بھی خطرات بڑھ رہے ہیں۔
’’حالات تو بڑے خطرناک ہیں۔ ایک تو سوسائٹی میں عدم رواداری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جس کو یہ لگتا ہے کہ ان کا ایجنڈا پروموٹ نہیں ہو رہا ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ میڈیا جو ہے وہ ان کے خلاف ہے۔ جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کسی صحافی کو مار دیں تو دہشت پھیلے گی۔‘‘
ضیا الدین کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کو پس پردہ نہ جانے دیں۔
’’کسی بھی صحافی پر حملہ ہو، چاہے وہ کسی بھی گروپ کا ہو۔۔۔ ایک پلیٹ فارم کے ذریعے مل کر یہ طے کر لیں کہ ہر ایشو کو۔۔۔ جیسے نورانی صاحب کا ایشو ہے اس کی ہم ہر روز کوریج کریں۔‘‘
صحافی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں نگرانی کے لیے ’سی سی ٹی وی‘ کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے حملہ آوروں کی شناخت کر کے اُنھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم ’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ کے مطابق ملک میں سال 2000ء کے اوائل سے اب تک 120 صحافی مارے جا چکے ہیں۔
رواں ماہ ہی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں ایک صحافی ہارون خان کو اُن کے گھر کے باہر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں صحافیوں پر حملہ کرنے اور اُنھیں قتل کرنے والوں کے خلاف مقدمات کی جلد سماعت کے لیے حکومت ٹربیونل قائم کرے کیوں کہ اب تک ملک میں محض دو صحافیوں کے قتل کے مقدمات آگے بڑھ سکے ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ و فلاح و بہبود کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی بھی کی جا رہی ہے جس کے تحت صحافیوں کے قتل یا اُن پر حملوں کے مقدمات کی جلد تفتیش اور پیروی کی جاسکے گی۔