کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں جمعرات کو ایک صحافی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دیگر صحافیوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ حکومت کی طرف داری سے گریز کریں۔
نجی ٹیلی ویژن چینل سے منسلک ہارون خان کو جمعرات کی رات اس وقت نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ نماز عشاء ادا کرنے کے بعد مسجد سے اپنے گھر جا رہے تھے۔
صوابی پولیس نے مقتول کے سوتیلے بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ بھائیوں کے درمیان جائیداد کا تنازع تھا۔
تاہم جمعے کی صبح جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کالعدم تحریکِ طالبان کے ترجمان نے ہارون خان کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مقتول صحافی ان کے خلاف حکومتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ کام کرتے تھے اور اسی بنیاد پر انہیں قتل کیا گیا۔
خیبر یونین آف جرنلسٹس اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں اور اضلاع میں صحافیوں کی تنظیموں نے ہارون خان کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سکیورٹی فورسز اور دیگر حکومتی اداروں کی نااہلی قرار دیا ہے۔
خیبر یونین آف جنرنلسٹس کی اپیل پر جمعے کو پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں ہارون خان کے قتل کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر سیف الاسلام سیفی نے ہارون خان کو قتل کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اس واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
خیبر پختونخوا اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران تین درجن سے زائد صحافی دہشت گردی اور پرتشدد واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے گزشتہ 17 برسوں کے دوران پاکستان بھر میں 107 صحافی دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جبکہ لگ بھگ دوہزار زخمی اور اپنے علاقوں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔