بھارت میں صحافیوں کی اعلٰی تنظیم 'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا' نے بھارتی ریاست تری پورہ میں صحافیوں اور وکلا کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے قانون 'یو اے پی اے' کے تحت کارروائی کی مذمت کی ہے۔
خیال رہے کہ تری پورہ میں 20 اکتوبر کو مذہبی فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں مسلمانوں پر تشدد اور اُن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی بھی اطلاعات آئی تھیں، یہ فسادات بنگلہ دیش میں ہونے والے فسادات کا شاخسانہ قرار دیے گئے تھے جہاں ہندو برادری کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
گلڈ نے مطالبہ کیا کہ تری پورہ میں گزشتہ ماہ ہونے والے مبینہ مسلم مخالف تشدد کی رپورٹنگ کی وجہ سے صحافیوں اور سول سوسائٹی کو سزا دینے کے بجائے تشدد کے اسباب کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔
ایڈیٹرز گلڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تری پورہ پولیس کی اس کارروائی سے اسے شدید دھچکہ لگا ہے۔ پولیس نے کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی یو اے پی اے کے تحت نوٹس ارسال کیے ہیں۔
خیال رہے کہ تری پورہ پولیس نے صحافیوں اور سپریم کورٹ کے وکلا سمیت 102 افراد کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت کیس درج کیا ہے۔ جن صحافیوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے ان میں شیام میرا سنگھ، عارف شاہ اور سی جے ورلیمان جیسے معروف صحافی بھی شامل ہیں۔
صحافیوں کے خلاف کارروائی سے قبل سپریم کورٹ کے دو وکلا انصار اندوری اور مکیش کے خلاف بھی یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
صحافی شیام میرا سنگھ نے کہا کہ صرف اس ٹوئٹ پر کہ ’تری پورہ جل رہا ہے‘ ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی۔ یہ انتہائی پریشان کن بات ہے کہ صرف واقعات کی رپورٹنگ کرنے اور تشدد کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے یو اے پی اے جیسے خطرناک قانون کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
’اکثریت کے تشدد‘ پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام
ایڈیٹرز گلڈ کے بیان کے مطابق یہ کارروائی پولیس کی جانب سے ’اکثریت کے تشدد‘ پر قابو پانے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے میں اپنی ناکامی سے عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت ایسے واقعات کی رپورٹنگ کو دبانے کے لیے ایسے خطرناک قانون کا استعمال نہیں کر سکتی۔
گلڈ نے سپریم کورٹ سے اپنے اس سابقہ مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اظہا رکی آزادی کے خلاف غلط طریقے سے اس قانون کے استعمال پر از خود کارروائی کرے اور اس سلسلے میں رہنما ہدایات جاری کرے تاکہ اظہارِ خیال کی آزادی کو کچلنے میں اس قانون کا استعمال نہ کیا جا سکے۔
پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوماکانت لکھیڑہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تری پورہ میں ہونے والے تشدد کے بعد میڈیا کے جو لوگ رپورٹنگ کے لیے گئے ان کو نشانہ بنایا گیا۔
ان کے بقول پولیس نے صحافیوں کے خلاف جو کارروائی کی ہے اس کا مقصد جمہوری آواز کو دبانا اور تشدد پر قابو پانے میں پولیس اور حکومت کی ناکامی کو چھپانا ہے۔
انہوں نے صحافیوں کے خلاف درج کیس واپس لینے اور تشدد کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو تشدد ہونے کا پہلے سے علم تھا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے ریاستی پولیس افسران کے کردار کی جانچ اور ان کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔
لکھیڑہ نے الزام لگایا کہ تری پورہ کی پولیس نے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا تاکہ ملک کا ماحول خراب ہو۔ اس وقت ملک میں پرامن حالات ہیں اور کہیں بھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہو رہا ہے۔
ایک سو دو افراد کے خلاف کارروائی
خیال رہے کہ تری پورہ پولیس نے تری پورہ میں پیش آنے والے واقعات پر سوشل میڈیا پر ردِعمل دینے پر 102 افراد کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی ہے۔ اس نے 68 ٹوئٹر اکاؤنٹس اور 32 فیس بک اور دو یو ٹیوب اکاؤنٹس کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔
رپورٹس کے مطابق پولیس نے ٹوئٹر، فیس بک اور یو ٹیوب کے اعلیٰ اہلکاروں کو بھی نوٹس ارسال کیے ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ مذکورہ اکاؤنٹس کو بلاک کریں اور ان کے کوائف پولیس کو ارسال کریں۔
مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان حملوں میں کئی مساجد پوری طرح جل کر خاکستر ہو گئی ہیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ وکلا اور صحافیوں کو یو اے پی اے کے تحت نوٹس جاری کرنے کا مقصد حکومت کی ناکامیوں کے خلاف بولنے والوں کو ہراساں کرنا ہے۔
پولیس اور حکومت کا مؤقف
ادھر تری پورہ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) ارندم ناتھ نے واضح کیا ہے کہ ایف آئی آر درج کیے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ قصوروار ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان لوگوں نے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے یا ان کی نیت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا اور سازش کرنا نہیں تھی تو انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بہت سے انٹرنیٹ صارفین نے جعلی شناخت کو استعمال کر کے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ پولیس نے اس سلسلے میں صحیح سمت میں قدم اٹھایا اور کارروائی کی ہے۔
تری پورہ کے وزیر اطلاعات و ثقافت سوشانتا چودھری نے کہا کہ باہر کے لوگوں کے ایک گروپ نے تری پورہ میں بد امنی پھیلانے کے لیے انتظامیہ کے خلاف سازش کی اور 26 اکتوبر کو پانی ساگر میں نکلنے والی ریلی کے بعد ایک مسجد کے جلنے کی جعلی تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی۔ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔