پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کے دوران کنٹینر کے نیچے آ کر ہلاک ہونے والی خاتون صحافی صدف کے شوہر نعیم بھٹی نے کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی سے انکار کر دیا ہے۔
صدف نعیم کی موت اتوار کو اس وقت ہوئی جب وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کی کوریج کے لیے فیلڈ میں موجود تھیں۔ وہ لانگ مارچ کے اس مرکزی کنٹینر پر جانے کی کوشش کر رہی تھیں جس پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی دیگر مرکزی قیادت سوار تھی۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب صدف کی نمازِ جنازہ لاہور کے علاقے اچھرہ میں ادا کی گئی جس کے بعد انہیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر صدف کی موت پر جہاں افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہیں اسے قتل کا رنگ بھی دیا جا رہا ہے۔تاہم صدف کے شوہر نعیم بھٹی نے اہلیہ کی موت کو ایک حادثے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نعیم بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے صدف کے آخری لمحات کی ویڈیوز دیکھیں ہیں جس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی اہلیہ کی موت کسی اور شخص کی وجہ سے ہوئی ہے۔
کامونکی کے تھانہ صدر میں دائر درخواست میں بھی نعیم بھٹی اپنی اہلیہ کی ہلاکت کو حادثہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ لاش کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کرانا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ان میں کسی بھی قسم کی صداقت نہیں۔
واضح رہے کہ صدف کی موت سے متعلق سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ عمران خان کے کنٹینر پر موجود سیکیورٹی گارڈ کے دھکے کی وجہ سے صدف نیچے گریں اور کنٹینر کے نیچے آ کر ہلاک ہو گئیں۔
'ہم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں'
قانونی چارہ جوئی سے انکار پر کسی قسم کے دباؤ سے متعلق سوال پر نعیم بھٹی نے کہا کہ ان پر تحریکِ انصاف یا حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ہے۔
ان کے بقول، چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان پیر کو ان کے گھر صدف کی تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں نعیم بھٹی نے بتایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے امداد کا اعلان ضرور کیا ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے اب تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
چالیس سالہ صدف نعیم گزشتہ 12 سال سے صحافت سے منسلک تھیں اور لاہور کے علاقے اچھرہ میں مقیم تھیں۔ انہوں نے اپنی موت سے ایک روز قبل چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کا انٹرویو بھی کیا تھا۔
صدف نے سوگواران میں 21 سالہ بیٹی اور ایک 15 سالہ بیٹا چھوڑاہے۔
'صدف نے کہا لانگ مارچ کی وجہ سے چھٹی نہیں ہے'
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاالرحمٰن سے بات کرتے ہوئے صدف کے خاوند نعیم بھٹی نے بتایا کہ "جب صدف اتوار کی صبح ڈیوٹی پر جا رہی تھیں تو دونوں بچوں نے کہا کہ امی آج کام پر نہ جائیں آج تو اتوار ہے اور چھٹی ہے، جس پر صدف نے جواب دیا کہ لانگ مارچ کی وجہ سے چھٹیاں ختم ہیں اور ڈیوٹی پر جانا ضروری ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ صدف نے اپنے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ اتوار کے روز وہ جلدی واپس آ جائے گی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ ان کی بچوں سے آخری ملاقات ہے اور اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔
صدف کے شوہر کا کہنا تھا کہ کنٹینر کے نیچے آ جانے سے ان کی اہلیہ کی لاش کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی جس کے باعث ڈاکٹروں کی مشاورت کے بعد اتوار کو ہی ان کی تدفین کی گئی۔
یاد رہے حکومت مخالف تحاریک اور احتجاجوں میں پہلے بھی حادثات ہوتے رہے ہیں۔ اِس سے قبل 2017 میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے خلاف نکالی جانے والی ریلی میں جہلم کے قریب قافلے میں شریک ایک گاڑی کے نیچے آٹھ سالہ بچے کے آ جانے سے اُس کی موت ہو گئی تھی۔
اتوار کو عمران خان کے قافلے میں صدف ہلاکت سے قبل مرکزی کنٹینر کے ساتھ پیدل چل رہی تھیں۔ ان کے ہمراہ پیدل چلنے والے دیگر صحافی بتاتے ہیں کہ ان سب کی کوشش تھی کہ عمران خان سمیت دیگر مرکزی قیادت کے انٹرویوز کیے جائیں۔ اِس سلسلے میں سب ہی رپورٹرز اپنی اپنی کوششیں کر رہے تھے۔
صدف کے ہمراہ اس وقت پیدل چلنے والے نجی ٹی وی 'جی این این' کے سینئر صحافی محمد واصف نے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاالرحمٰن کو بتایا کہ صدف کی موت کس طرح ہوئی وہ اس بارے کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
محمد واصف نے کہا کہ آیا کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش میں صدف کا پاؤں پھسلا یا مارچ میں شریک لوگوں کی دھکم پیل سے وہ نیچے گری؟ یہ تو تفتیش کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔
صحافی محمد واصف کے بقول انہوں نے صدف کو ہمیشہ محنت کرتے دیکھا اور وہ پولیٹیکل رپورٹر کے ساتھ ساتھ شوبز کی بیٹ بھی کور کیا کرتی تھیں۔
نجی ٹی وی '92 نیوز' کے رپورٹر اور پاکستان میں صوبائی سطح پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیم 'پنجاب یونین آف جرنلسٹ' کے جنرل سیکریٹری محمد شاہد چوہدری بتاتے ہیں کہ صدف نعیم ایک محنتی اور بہادر خاتون صحافی تھی۔ انہوں نے محنت کر کے اپنا مقام بنایا، وہ اپنی ملازمت کے ساتھ گھر کو بھی چلاتی تھی۔